یو ایس ایڈ کی منتظمہ اعلیٰ سمانتھا پاور نے ورلڈ فوڈ پرائز بورلاگ ڈائیلاگ میں کہا کہ آج کے غذائی بحران کے بہت سے قصور وارہیں۔ "لیکن سچ یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کہیں زیادہ شدّت سے تباہی مچا رہی ہے جبکہ ہم اس کا مداوا کر سکتے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ درجہ حرارت اور سیلاب کا پانی اس تیزی سے بڑھ رہا ہے کہ ہنگامی امداد کے لیے مختص رقم اس کے لیے ناکافی پڑ چکی ہے۔ ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ ہم صرف نقد رقم یا کھانے کی امداد کے ذریعے ہی گزارہ کر سکتے ہوں۔
ہم جس راستے پر جا رہے ہیں وہ غیرپائیدار ہے۔ اگر موسمیاتی تبدیلی آنے والے سالوں میں ایک سے زیادہ بار بیک وقت حملہ آورہوتی ہے توموجودہ خوراک کے ذخائر ناکافی ہوں گے اور یہ ایک ایسی تاریک صورت حال ہوگی ، جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔
لیکن اس اندھیرے سے باہر نکلنے کا ایک راستہ موجود ہے۔ یہ راستہ جسے ورلڈ فوڈ پرائز کے خالق، ماہر زراعت اور نوبل امن انعام یافتہ نارمن بورلاگ نے دکھایا ہے، جنہیں ساری دنیا سبز انقلاب کا خالق سمجھتی ہے۔
ایڈمنسٹریٹرپاور نے کہا کہ کئی سالوں کی تحقیق کے بعد، ڈاکٹر بورلاگ نے "گندم اور چاول جیسی اہم اناج کی نئی قسمیں تخلیق کیں جس نے ایشیا اور لاطینی امریکہ میں غذائی پیداوار میں نمایاں اضافہ کرنے میں مدد کی ہے۔"
انہوں نے کہا کہ "آج ہم خوراک کے عالمی بحران سے گزر رہے ہیں ، ہمیں مستقبل میں خوراک کی پیداوار پر آب و ہوا کے مزید دباؤ کا بھی خدشہ ہے، یہ واضح ہے کہ ہمیں ماضی سے سبق سیکھنا ہوگا۔ اور ہمیں اپنے طریقوں کو اس وقت درپیش چیلنجوں کے مطابق ڈھالنے اورتبدیلی لانے کے لیے اپنی کوششوں کو تیز کرنے اورانہیں ڈرامائی طور پر وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہم کیا اگا تے ہیں اور اس سے کس کو کتنا فائدہ ہوتا ہے۔"
وہ سائنسدان ڈاکٹر گیبیسا ایجیٹا تھیں، جنہیں 2009 میں ورلڈ فوڈ پرائزدیا گیا تھا۔ "آج، ہم افریقی سائنسدانوں کی نئی نسل کی مدد کر رہے ہیں جو ڈاکٹرایجیٹا کی تحقیق کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "سبز انقلاب کا بنیادی سبق واضح ہے۔ زرعی پیداواراوربنیادی تحقیق میں سرمایہ کاری کی جائے تاکہ طلب کے مقابلے میں خوراک کی فراہمی کو زیادہ تیزی سے بڑھا یا جا سکے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**