سعودی عرب کے خلاف حوثیوں کے حالیہ حملوں کی امریکہ سخت مذمت کرتا ہے۔ 31 اگست کو ایک ڈرون نے ابھا ایئرپورٹ میں ایک سویلین ہوئی اڈے کو نشانہ بنایا جس میں آٹھ شہری زخمی ہو گئے اور ایک تجارتی طیارے کو نقصان پہنچا۔ چار ستمبر کو حوثیوں کے میزائل حملے میں سعودی عرب کے مشرقی صوبے کو نشانہ بنایا گیا جس سے دو بچے زخمی ہوئے اور متعدد مکانات کو نقصان پہنچا۔
ایک تحریری بیان میں وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے اس جانب توجہ دلائی کہ 2021 کی ابتدا سے سعودی عرب کو حوثیوں کی جانب سے 240 سے زیادہ حملوں کا سامنا ہوا ہے جنہوں نے سعودی عرب میں مقیم امریکہ کے 70 ہزار سے زیادہ شہریوں سمیت سعودی باشندوں کی زندگیوں کے لیے خطرات پیدا کیے ہیں۔
وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ حوثیوں نے یمن کے اندر بھی حملوں میں تیزی پیدا کر دی ہے۔ خاص کر مارب پر حملے میں اضافہ ہوا ہے۔ 29 اگست کو الاعناد کے فضائی اڈے پر ڈرون اور میزائل حملے میں جو یمن کے لہج کے حکمرانی والے علاقے میں واقع ہے، کم سے کم 30 افراد ہلاک ہو گئے۔ سعودی عرب میں امریکی مشن نے اسے مذموم حملہ قرار دیا اور کہا کہ اس سے یمن میں زندگیوں، بنیادی ڈھانچے اور امن و استحکام کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔
یمن مین جنگ کا آغاز 2014 میں ہوا جب حوثیوں نے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت سے دارلحکومت صنعا کا کنڑول چھین لیا اور یمن کے صدر کو جلا وطنی پر مجبور کر دیا۔ سعودی عرب کی قیادت میں فوجی اتحاد نے 2015 میں یمن میں مداخلت کی اور معزول صدر کی افواج اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ اور جائز یمنی حکومت کی حمایت کا اعلان کیا۔
اقوامِ متحدہ کے اندازے کے مطابق کئی برسوں کے دوران کم سے کم دو لاکھ 33 ہزار لوگ مارے جا چکے ہیں جن میں ایک لاکھ 31 ہزار ایسے افراد شامل ہیں جو بلاواسطہ طور پر خوراک کی کمی، صحت کی خدمات اور بنیادی ڈھانچے کے فقدان کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔
اس تنازع نے دنیا کے بدترین انسانی بحران کو جنم دیا ہے جس کی وجہ سے یمن میں 50 لاکھ لوگوں کو فاقوں کا سامنا ہے اور دو کروڑ سے زیادہ کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد درکار ہے۔
مارچ 2021 میں سعودی عرب اور یمن کی حکومت نے پورے یمن میں جنگ بندی پر اتفاق کیا لیکن حوثیوں نے اس تجویز کو رد کر دیا۔
بائیڈن۔ہیریس انتظامیہ تنازع کے سیاسی حل پر زور دیتی رہی ہے۔ اپنے بیان میں وزیر خارجہ بلنکن نے کہا کہ حوثیوں کے حملوں سے تنازع ختم ہونے میں نہیں آ رہا جس سے یمنی عوام کے مصائب طول پکڑ رہے ہیں اور ایک نازک مرحلے پر امن کی کوششیں خطرے سے دوچار ہو رہی ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ ہم حوثیوں پر زور دیں گے کہ وہ جنگ بندی کو برقرار رکھیں اور اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام مذاکرات میں شریک ہوں۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**