ایران میں انسانی حقوق کے نمایاں ترین کارکنوں میں شامل نرگس محمدی کو حال ہی میں طبی بنیادوں پر تہران کے بدنامِ زمانہ اوین قید خانے کے سیل سے تین ہفتے کے لیے نکالا گیا ہے۔ نوبیل انعام یافتہ نرگس محمدی کو ان کے وکلا کی بار بار درخواستوں کے بعد قید سے طبی رخصت دی گئی ہے۔
محمدی کو گزشتہ ماہ ایک مشتبہ رسولی نکالنے کے لیے کی گئی جراحی اور ہڈی کی سرجری سے گزرنا پڑا تھا۔ ان کے وکلا نے تین ماہ کی رخصت مانگی تھی جس کے مقابلے میں 21 دن کی بہت کم مدت کی منظوری دی گئی۔
نرگس محمدی ایک مصنف، سابق صحافی اور ڈیفنڈرز آف ہیومن رائٹس سینٹر کی ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔ ایران میں سیاسی قیدیوں اور خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے اور پرامن کوششوں پر انہیں حکومت کئی مرتبہ گرفتار کرکے مقدمات چلا چکی ہے اور قید رکھ چکی ہے۔ انہیں آخری مرتبہ 2021 میں گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد انہیں 13 سال کی سزا سنائی گئی تھی۔ قید و بند کے دوران ان کی صحت بری طرح متاثر ہوئی۔
اوین جیل کی بلند دیواروں میں قید نرگس اپنے جوش و جذبے اور غیر متزلزل عزم کی وجہ سے پہچان رکھتی ہیں۔ انہیں جیل سے رخصت کے موقعے پر جب ایمبولینس کے ذریعے گھر لایا گیا اور اسٹریچر کے ذریعے منتقل کیا جارہا تھا تو انہوں نے ’’زن، زندگی، آزادی‘‘ کا نعرہ بلند کیا۔
ایرانی حکومت کی جانب سے نرگس محمدی کو ایک بڑی سرجری کے بعد بہت کم مدت کے لیے سکون کی مہلت دینے کی خبر ایسے وقت میں آئی جب ایرانی حکام خواتین پر لباس کی پابندیاں نافذ کرنے کے لیے زیادہ شدت سے اقدامات کر رہی ہے۔ ایران کی پارلیمنٹ نے حال ہی میں ’’عفاف و حجاب‘‘ قانون منظور کیا ہے جس میں حجاب کی خلاف ورزی کرنے والے خواتین کے خلاف بھاری جرمانے اور دیگر سزاؤں کی منظوری دی گئی ہے اور اپنی حدود میں ایسی کسی خلاف ورزی کی اجازت دینے والے اداروں کے لیے بھی سزائیں مقرر کی ہیں۔
امریکہ اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں کی طرح نرگس محمدی کی رہائی کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ حال ہی میں ایک پریس بریفنگ کے دوران محکمۂ خارجہ کے پرنسپل ڈپٹی ترجمان ویدانت پٹیل نے نرگس محمدی کو درپیش حالات کو ’’پریشان کُن اور بدقسمتی‘‘ قرار دیا۔
’’کیوں کہ اول تو انہیں قید ہی نہیں ہونا چاہیے تھا اور ان کی بگڑتی ہوئی صحت ایرانی حکومت کی جانب سے ان سے روا رکھے گئے ظالمانہ برتاؤ کا براہ راست نتیجہ ہے۔ ہم ایک بار پھر مطالبہ کرتے ہیں، جیسا ہم ماضی میں کرچکے ہیں کہ نرگس محمدی اور بلاجواز قید دیگر سیاسی قیدیوں کو فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ’’ایسے مثالوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ ایرانی حکومت نے ناقدوں کو خاموش کرانے، صحافیوں، نرگس محمدی سمیت انسانی حقوق کے کارکنوں کو خاموش کرانے کے لیے جو اقدامات کیے ہیں ان کی فہرت بھی بہت لمبی ہے۔ اور یہ طرزِ عمل اب ختم ہونا چاہیے۔
یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی عکاسی کرتا ہے۔