انسان کی اوسط عمر میں اضافہ

فائل فوٹو

گزشتہ ایک صدی کے دوران انسان کی اوسط عمر دگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے اور بڑی حد تک متعدد سائنسی پیش رفت کے نتیجے میں تقریباً 35 سال سے 70 سال تک پہنچ گئی ہے۔

لیکن واشنگٹن میں سنٹر فار گلوبل ڈویلپمنٹ میں منعقد ہونے والی ایک حالیہ گفتگو میں یو ایس ایڈ کی منتظم سمانتھا پاور نے خبردار کیا کہ 2020 میں کووڈ ۔19 کی وبا کی وجہ سےاوسط عمر میں دو سال تک کمی ہو گئی تھی۔

منتظم سمانتھا پاور نے کہا کہ’’ کووڈ کی وبا نے صرف انفرادی مدافعتی نظام پر ہی حملہ نہیں کیا بلکہ اس نے ہمارے معاشرتی مدافعتی نظام پر بھی حملہ کیا ہے۔ اس نے دنیا بھر میں صحت کے نظام کو کمزور کر دیا اور اس بات کا امکان کم کر دیا کہ وبائی مرض کے ختم ہونے کے بعد ہم اوسط عمر میں اضافے کا سفر جاری رکھ سکیں۔

پاور نے کہا کہ دنیا بھر میں صحت کی دیکھ بھال کے نظام پر دباؤ ڈالنے والے ان بنیادی چیلنجوں کو ختم کرنے کے لیے ہمیں تین بنیادی اہداف کے حصول میں متحد ہو کر مضبوطی پیدا کرنی چاہیے۔

اُن کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے ہمیں اس مرض کے خلاف اس لڑائی کو مکمل کرنا ہوگا جس کی وجہ سے اوسط زندگی میں کمی واقع ہوئی ہے ۔ اس کے لئے ہمیں کووڈ کی وبا کو ہر جگہ کنٹرول کے قابل بنانے کی ضرورت ہے۔ ‘

سمانتھا پاور کا کہنا تھا کہ ’’دوسری بات یہ ہے کہ ہمیں نئی وباؤں اور مستقبل کے وبائی خطرات کے خلاف عالمی کی ضرورت ہے کیوں کہ کووڈ کو دنیا بھر میں پھیلانے کے ذمے دار عوامل اب بھی ہمارے ساتھ ہیں۔

سمانتھا پاور آخر میں توجہ دلاتی ہیں کہ’’ہمیں ان لوگوں میں سرمایہ کاری کرکے اپنے صحت کے نظام میں دوبارہ مضبوطی پیدا کرنا ہے جو ان نظاموں کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ لوگ ہمارے بنیادی صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کلیدی کارکن ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہےکہ کووڈ وبا کی روک تھام اور علاج کے بعد معمول کی دیکھ بھال کی طرف منتقلی اور تمام متعدی امراض کے پھیلاؤ کو روکنے، ان کا پتہ لگانے اور ان کے ردِ عمل کی عالمی صلاحیت میں اضافہ کیا جائے۔

پاور نے کہا کہ ہمیں بنیادی طبی دیکھ بھال کے پیشہ ور افراد میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ ’’آج افریقہ کو دنیا بھر کے امراض کے ایک چوتھائی حصے کا سامنا ہے لیکن اس کے ہیلتھ ورکرز کی تعداد صرف چار فی صد ہے۔‘‘

یو ایس ایڈ کی منتظم سمانتھا پاور کہتی ہیں کہ ’’ان میں سے بیشتر کارکنوں کو نمایاں طور پر کم معاوضہ دیا جاتا ہے، یا انہیں کوئی ادائیگی نہیں کی جاتی۔

یہ معمول کی صورتِ حال ہے کہ جب کسی پیشے پر ( کسی خاص گروپ کا) غلبہ ہوتا ہے جیسا کہ بنیادی صحت کی دیکھ بھال کے شعبے میں خواتین کی (تعداد زیادہ ہے) ۔

ایک حالیہ رپورٹ سے پتا چلا ہے کہ مجموعی طور پرعالمی سطح پر صحت کی افرادی قوت میں شامل 60 لاکھ خواتین کو یا تو بہت کم معاوضہ دیا جاتا ہے یا انہیں بالکل ادائیگی نہیں کی جاتی ۔ (ان کی تعداد) ساٹھ لاکھ ہے۔‘‘

پاور نے کہا کہ ایک صدی پہلے یہ تصور کرنا تقریباً ناممکن تھا کہ آئندہ صدی اوسط زندگی کو دگنا کرنے کا معجزہ لے کر آئے گی۔ آج ہم وبائی مرض سے سیکھے سبق سے نہ صرف انفرادی مدافعتی نظام بلکہ معاشرتی مدافعتی نظام کو مضبوط بنا سکتے ہیں تاکہ ترقی کی یہ شان دار داستان ہمارے ساتھ ختم نہ ہو بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے (بھی مثبت ماحول ) تعمیر کرے۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**