خطروں میں گھرے صحافی

فائل فوٹو

نیو یارک کے سدرن ڈسٹرکٹ میں امریکہ کے اٹارنی کے دفتر سے ایک حالیہ بیان میں ایف بی آئی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ولیم سوئنی نے کہا کہ ایرانی حکومت کی پشت پناہی میں ایک ٹولے نے یہاں ہماری سرزمین پر امریکہ میں مقیم ایک صحافی کو اغوا کرنے اور اسے زبردستی ایران لے جانے کی سازش کی ہے۔

اغوا کا نشانہ بننے والی صحافی کی شناخت مسیح علی نژاد کے طور پر کی گئی ہے جو ایک ایرانی امریکی صحافی ہے اور جو اس وقت نیو یارک میں مقیم ہیں۔

انہوں نے برسوں ایک صحافی کے طور پر ایران میں کام کیا اور اپنی رپورٹنگ کی وجہ سے ایرانی حکومت کی ناراضگی مول لی۔ 2009 میں اپنے ملک سے فرار ہونے کے بعد سے علی نژاد ایران میں حجاب کے لازمی استعمال کے خلاف سوشل میڈیا پر اپنی مہم کے لیے شہرت حاصل کر چکی ہیں۔ وہ وائس آف امریکہ کے ایک مقبول پروگرام میں میزبان کے طور پر بھی کام کرتی ہیں۔

وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری جین ساکی نے ایران کے خطرناک اور قابلِ نفرت مبینہ منصوبے کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے ایسے لوگوں کی آواز کو خاموش کرنے کے لیے جو ایران کے اندر اور باہر پرامن طور پر کام کر رہے ہیں، ایران کی کوششوں کو نہایت افسوس ناک قرار دیا ہے۔

سن 2021 کی عالمی پریس فریڈم رپورٹ میں 180 ملکوں میں سے ایران کا نمبر 174 واں ہے۔ یہ رپورٹ رپورٹرز ود آوٹ بارڈر کی جانب سے مرتب کی گئی ہے۔

میڈیا کی آزادی سے متعلق اس تنظیم نے صحافیوں پر کنڑول کے بارے میں ایران کی حکومت کی سفاکانہ کوششوں کا حوالہ دیا ہے جن میں ان کی تفتیش، انہیں پابندِ سلاسل کرنا اور پھانسی دینا شامل ہے۔

لیکن ایران واحد ملک نہیں ہے جہاں صحافیوں کی زندگیوں کو خطرہ درپیش ہے۔ جیسا کہ وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے توجہ دلائی ہے کہ محکمۂ خارجہ کی انسانی حقوق کے حوالے سے حالیہ رپورٹ میں میڈیا کے درجنوں کارکنوں کا ذکر کیا گیا ہے جنہیں ہراساں کیا گیا۔ ان پر حملے کیے گئے اور اپنے فریضے کے ادائیگی پر انہیں ہلاک کر دیا گیا۔

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ' نے بتایا ہے کہ 2020 میں ایسے صحافیوں کی تعداد جنہیں ان کی رپورٹنگ کی پاداش میں ہلاک کر دیا گیا دوگنا سے بھی بڑھ گئی ہے۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں میکسیکو اور افغانستان میں ہوئیں اور 'سی پی جے' کے مطابق 2020 میں صحافیوں کی تعداد جنہیں ان کی رپورٹنگ کی بنا پر جیل میں ڈال دیا گیا۔ اس کے بعد سے بلند ترین سطح پر پہنچ گئی جب سے اس تنظیم نے اس کا حساب کتاب رکھنا شروع کیا ہے۔ گزشتہ برس عوامی جمہوریہ چین، ترکی اور مصر نے سب سے زیادہ تعداد میں رپورٹرز کو قید کیا۔

مسیح علی نژاد نے جب اپنے خلاف اغوا کی سازش کا سنا تو انہوں نے عہد کیا کہ وہ اپنا کام تندہی سے جاری رکھیں گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ تمام زخم مجھے اور بھی طاقت بخشتے ہیں۔ یہ دنیا بھر میں بہت سے صحافیوں کا جذبہ ہے جو خطرے سے قطع نظر طاقت ور افراد کے آگے سچ بولتے ہیں۔

جیسا کہ وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ غیر جانب دار میڈیا کی جانب سے جو درست اور حقیقت پر مبنی معلومات مہیا کی جاتی ہیں، وہ خوشحال اور محفوظ جمہوری معاشروں کے لیے کلیدی حیثیت کی حامل ہیں۔ ہم تمام حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ میڈیا کی سلامتی کو یقینی بنائیں اور صحافیوں کو تحفظ فراہم کریں تاکہ وہ تشدد، خطرات یا غیر منصفانہ قید و بند سے آزاد ہوکر اپنا فریضہ ادا کر سکیں۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**