زرعی میدان میں خواتین کے لیے یکساں مواقع

فائل فوٹو

اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کے مطابق، دنیا بھر میں تقریباً 36 فی صد خواتین خوراک سے متعلق زراعت کے شعبوں سے وابستہ ہیں۔

برِاعظم افریقہ کے جنوب میں واقع ممالک میں خواتین کی شرح 66 فی صد ہو جاتی ہے اور جنوبی ایشیا میں یہ 71 فی صد ہے اور اب بہت سی خواتین یہ کام کھیتوں میں کرتی ہیں۔

لیکن ہر جگہ عدم مساوات اور امتیازی سلوک زرعی نظام میں خواتین کے لیے رکاوٹیں پیدا کر رہا ہے۔ پوری دنیا میں، خواتین عام طور پر مردوں سے بدتر حالات اور کم اجرت پر کام کرتی ہیں اور بہت سے ممالک میں اب بھی زمین کی ملکیت سے متعلق خواتین کے لیے قانونی تحفظ ناکافی ہے۔

ایف اے او کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، جب تک انہیں مویشیوں، پانی اور بیجوں کے ساتھ ساتھ زمین، ٹیکنالوجی اور اپنے روزگار بڑھانے کے لیے درکار مالی وسائل تک مکمل رسائی اور کنٹرول حاصل نہیں ہوتا، خواتین زرعی نظام میں اپنا مکمل
حصہ نہیں ڈال سکتیں۔

امریکہ کے امداد کے عالمی ادارے یو ایس ایڈ کے فیڈ دی فیوچر پروگرام کی ڈپٹی کوآرڈینیٹر ڈینا آسپیسیٹو کا کہنا ہے "اگر زرعی نظام میں خواتین کو مردوں جیسی سہولتوں تک رسائی حاصل ہو، ان سے زیادہ نا بھی ہوں – صرف ان جیسی ہوں ۔ تو ہم قومی مجموعی پیداوار کو دس کھرب ڈالر تک پہنچا سکتے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ اس وجہ سے بھوکے لوگوں کی تعداد میں ساڑھے چار کروڑ تک کمی لا سکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یو ایس ایڈ نے خواتین کے لیے گرو نامی پروگرام شروع کیا ہے جس سے خواتین کے لیے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔

ڈپٹی کوآرڈینیٹر نے کہا کہ ’’ اس کے لیے کوشش کے تین پہلو ہیں۔ پہلا خواتین کسانوں کی پیداواری صلاحیت اور لچک پر مرکوز ہے۔ اور ہماری زبان میں اس کا مطلب حالات سے نمٹنا ، اپنے آپ کو حالات کے مطابق ڈھالنے اور یہاں تک کہ مشکل حالات میں پھلنے پھولنے کی صلاحیت ہے۔

یہ اس بارے میں ہے کہ وہ کون سی پیداواری صلاحیتیں ہیں جو پہلے سے کسی نظام یا کمیونٹی میں موجود ہیں اور ہم کیسے ان صلاحیتوں کو سہارا دے سکتے ہیں تاکہ لوگوں کو خطرے سے نمٹنے میں مدد ملے۔

ڈپٹی کوآرڈینیٹر آسپیسیٹونے کہا ہمارا عزم ہے کہ ایسی خواتین کی تعداد کو دوگنا کیا جائے جو کھیتوں میں بہتر ٹیکنالوجیز اور انتظامی طریقوں کو نافذ کریں

یو ایس ایڈ کی ڈینا آسپیسیٹو نے کہا کہ ہم زمین تک رسائی، ماحولیاتی تبدیلیوں کے مطابق زیادہ پیداوار دینے والے سمارٹ بیج، اور کھاد، فنانس، معلومات اور ٹیکنالوجی پر توجہ مرکوز کر یں گے۔

انہوں نے کہا کہ ’’ اس پروگرام کا دوسرا ستون خواتین کے معیار کو بہتر بنانے اور کھیتوں میں کام سے حاصل آمدن میں مدد کر نا ہے۔

اور پھر تیسرا شعبہ واقعی اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ جب ہم اپنی امدادی سرگرمیاں سر انجام دیتے ہیں تو مردوں اور عورتوں کی منفرد ضروریات اور صنفی فرق کے بارے میں سوچا جائے کہ لوگ کس طرح تنازعات کا سامنا کرتے ہیں۔

ڈپٹی کوآرڈینیٹر نے کہا کہ ’’صنفی مساوات صرف درست ہی نہیں ۔یہ منافع بخش ہے، مناسب ہے، اور یہ خوراک کے نظام کو مزید مضبوط بنانے کے لئے اہم ہے۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**