افغانستان میں طالبان حکومت نے دسمبر کے اوائل میں خواتین پر طبی تعلیم حاصل کرنے پر پابندی لگا دی۔ ان میں نرسنگ اور دایہ کا کام کرنے والی خواتین بھی شامل ہیں۔ چوں کہ مرد طبی عملے کو خواتین کے علاج سے منع کیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ مستقبل قریب میں افغانستان کی خواتین کو کسی بھی طرح کے طبی علاج تک رسائی حاصل نہیں ہوگی۔
10 دسمبر میں انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کی 76 ویں سالگرہ منائی گئی۔ اقوامِ متحدہ میں امریکی مستقل نمائندہ، لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ ’’ستم ظریفی یہ ہے کہ افغانستان ان 48 ممالک میں سے ایک تھا جنہوں نے ابتدا ہی میں اس اعلامیے کو اپنایا تھا جو تمام حقوق اور آزادیوں کا مردوزن پر یکساں طور پر اطلاق کرتا ہے۔
سفیر گرین فیلڈ کا کہنا ہے کہ ’’لیکن آج طالبان ایک کے بعد ایک ایسا حکم نامہ جاری کر رہے ہیں جو خواتین اور لڑکیوں کو بنیادی حقوق سے محروم کررہے ہیں ۔ان میں سیکھنے، زندہ رہنے اور آزادی اور وقار کے ساتھ پھلنے پھولنے کے مواقع کی ممانعت شامل ہے۔
طالبان نے حال ہی میں خواتین کی طبی تربیت تک رسائی پر پابندی لگا دی جس کا مطلب ہے کہ طبی دیکھ بھال تک رسائی ممکن نہیں۔ مستقبل میں خواتین کی صحت کی دیکھ بھال کی ضروریات کیسے پوری ہوں گی اگر خواتین ڈاکٹرز، نرسیں، ڈینٹسٹ اور دائیاں نہیں ہوں گی کیوں کہ اس کے ساتھ ساتھ مرد ڈاکٹروں کو خواتین کا علاج کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
لنڈا گرین فیلڈ مزید کہتی ہیں کہ ’’یہ نئی پابندی منطق کی نفی کرتی ہے اور ممکنہ طور پر افغان خواتین اور لڑکیوں کے لیے سزائے موت کی نمائندگی کرتی ہے جنھیں زندگی بچانے والے طبی علاج کی اشد ضرورت ہے۔ اس کا اثر ہر ماں، ہر نوزائیدہ بچے، لڑکوں اور لڑکیوں اور افغانستان کے مستقبل پر مرتب ہو گا۔
سفیر تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ ’’یہ حکم ثقافتی نہیں ہے اور نہ ہی اس کا مذہب سے کوئی تعلق ہے۔ یہ ناقابلِ فہم ہے۔ یہ بیمار سوچ کا آئینہ دار ہے۔ یہ سنگ دلی کی علامت ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ یعنی طالبان اپنی ماؤں کو سزا دے رہے ہیں جنہوں نے انہیں جنم دیا۔ اپنی بہنوں، بیویوں اور اپنی بیٹیوں کو سزا دے رہے ہیں کہ اگر وہ بیمار ہو جائیں تو ان کی آنکھوں کے سامنے جان دے دیں۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ طالبان تمام افغان عوام کے لیے تباہ کن طور پر برے ثابت ہوئے ہیں۔ انھیں اقتدار سنبھالے تین سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن اس وقت ملک ایک انسانی تباہی کی طرف جا چکا ہے۔ آج 97 فی صد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔
سفیر گرین فیلڈ مزید کہتی ہیں کہ ’’ہمیں افغانستان میں سنگین انسانی صورتِ حال پر بھی گہری تشویش ہے، افغانستان کی نصف سے زیادہ آبادی یعنی تقریباً 23 ملین افغان افراد کو خوراک کے عدم تحفظ، غذائی قلت اور بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا سامنا ہے اور دھماکہ خیز اسلحے کے استعمال سے ہونے والی آلودگی کے نتیجے میں انھیں انسانی امداد کی ضرورت ہے۔
سفیر تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ ’’افغان عوام اور خاص طور پر افغان خواتین کے لیے میرا پیغام یہ ہے کہ ہم یکجہتی کے لیے آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔اس جبر کے ماحول میں ہم اور ہمارے شراکت دار افغان عوام کی حمایت کے پختہ عزم پر ثابت قدم ہیں۔‘‘
یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی عکاسی کرتا ہے۔