عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ جیسا کہ امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ امریکہ کے تعلقات کثیر جہتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہر چند کہ یہ تعلق بنیادی طور سے مسابقت پر مبنی ہے لیکن جب ایسا کرنا امریکہ کے قومی مفاد میں ہو تو ہم چین کے ساتھ تعاون بھی کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم اس تعلق کے حوالے سے ایسی باتیں بھی ہیں جو معاندانہ ہیں۔
جیسا کہ امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا کہ عوامی جمہوری چین اندرون ملک زیادہ جابر اور بیرون ملک زیادہ اشتعال دلانے والا ملک بنتا جا رہا ہے اور وہ ایک غیر لبرل یا پابند نوعیت کے نظام کو آگے بڑھانے کے لیے کوشاں ہے۔
ان حالیہ الزامات سے واضح ہوتا ہے جو امریکی محکمہ انصاف نے چین کے تیرہ شہریوں کے خلاف امریکہ میں مجرمانہ سرگرمیوں کے ارتکاب کے لیے عائد کیے ہیں۔
اس سلسلے کا پہلا کیس تو وہ ہے جس میں عوامی جمہوریہ چین کے انٹیلی جنس افسروں نے چین میں قائم ایک ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی پر امریکہ میں چلنے والے فوج داری مقدمے کی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔
انہوں نے امریکہ میں قانون نافذ کرنے والے ایک ملازم کو خفیہ معلومات چرانے کے لیے رشوت دینے کی کوشش، جس میں ناکام رہے۔
ان معلومات میں گواہوں اور مقدمے کے ثبوتوں اور شواہد کے بارے میں معلومات کے حصول کی کوشش بھی شامل تھی۔
امریکہ کے اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے کہا کہ یہ چین کے انٹیلی جنس افسران کی جانب سے ایک چینی کمپنی کو احتساب سے بچانے اور ہمارے عدالتی نظام کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کے حوالے سے بڑی کارروائی تھی۔
دوسرے کیس میں امریکی محکمہ انصاف نے چین کے تین انٹیلی جنس افسروں اور اس کے ایک شہری پر امریکہ میں لوگوں کو چین کے انٹیلی جنس مشن کو آگے بڑھانے کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش پر فردِ جرم عائد کی ہے۔
انہوں نے یہ کام دس برس تک ایک جعلی چینی اکیڈیمک انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے کیا۔ اس سے دوسرے مقاصد کے حصول کے ساتھ امریکی ٹیکنالوجی اور آلات کے حصول اور امریکہ میں ایسے احتجاج کو روکنے کے مقاصد بھی شامل تھے جو چینی حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بنیں۔
تیسرے کیس میں امریکی محکمہ انصاف نے چین کی جانب سے کام کرنے والے سات افراد پر ایک امریکی باشندے کو چین واپس جانے پر مجبور کرنے کے لیے کئی برسوں سے جاری مہم کے لیے فردِ جرم عاید کی ہے۔ یہ کوشش چین کی ان ماورائے قانون کوششوں کا حصہ تھی، جسے آپریشن فاکس ہنٹ “کہا جاتا ہے۔
جس کا مقصد عوامی جمہوریہ چیں یا پی آر سی کے ان مبینہ مفرور افراد کو چین واپس لانا ہے، جو بیرون ملک فرار ہو چکے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ پی آر سی کے ناقد رہے ہیں۔
جیسا کہ یہ معاملات ظاہر کرتے ہیں، چین کی حکومت نے امریکہ میں افراد کے حقوق اور آزادیوں میں مداخلت کرنے اور ہمارے عدالتی نظام کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔
اٹارنی جنرل گارلینڈ نے اعلان کیا کہ”وہ کامیاب نہیں ہوئے” انہوں نے کہا کہ محکمہ انصاف کسی بھی غیر ملکی طاقت کی طرف سے قانون کی حکمرانی کو کمزور کرنے کی کوششوں کو برداشت نہیں کرے گا، جس پر ہماری جمہوریت قائم ہے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**