امریکہ کا عوامی جمہوریہ چین سے آبنائے تائیوان میں تحمل سے کام لینے کا مطالبہ

فائل فوٹو

چین نے 14 اکتوبر کو بڑے پیمانے پر فوجی مشقیں کیں جن میں تائیوان اور اس کے دور افتادہ جزیروں کے ارد گرد ریکارڈ تعداد میں لڑاکا طیاروں اور دیگر جنگی طیاروں کی پروازیں شامل تھیں۔

بیجنگ نے کہا کہ اس کی فوجی مشقوں کا مقصد تائیوان میں آزادی پسند قوتوں کے لیے "سخت انتباہ" ہے۔

یہ مشقیں تائیوان کے صدر لائی چنگ تے کی جانب سے قومی دن کے موقع پر ایک سالانہ تقریر میں یہ کہنے کے چار دن بعد عمل میں آئی ہیں کہ چین کو تائیوان کی نمائندگی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے اورانہوں نے بیجنگ کے چیلنجز کے پیشِ نظر کسی "الحاق (انضمام) یا تجاوزات کے خلاف مزاحمت" کرنے کے اپنے عزم کا اعلان کیا تھا۔

تائیوان نے ان ایک روزہ فوجی مشقوں کی جن میں خود مختار جزیرے کی ناکہ بندی شامل تھی "غیر معقول اشتعال انگیزی" کے طور پر مذمت کی ہے۔

امریکی محکمہ دفاع کے پریس سیکریٹری میجر جنرل پیٹ رائیڈر نے ایک بیان میں فوجی مشقوں کو "غیر ذمہ دارانہ، غیر متناسب اور غیر مستحکم کرنے والا" قرار دیا۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے ایک بیان میں "آبنائے تائیوان اور تائیوان کے ارد گرد پیپلز لبریشن آرمی کی مشترکہ فوجی مشقوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قومی دن کے موقع پر( ایک معمول کی سالانہ تقریر پر فوجی اشتعال انگیزی کے ساتھ عوامی جمہوریہ چین کا ردِعمل غیر ضروری ہے اور اس سے اضافے کا خطرہ ہے۔

میتھیو ملر نے چین پر زور دیا کہ تحمل سے کام لیا جائے اور مزید اقدامات گے گریز کیا جائے جس سے آبنائے تائیوان اور وسیع خطے میں امن و استحکام کو نقصان پہنچے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اپنے مشترکہ اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر چین کی ان سرگرمیوں کی نگرانی کرتے رہیں گے۔

میجر جنرل رائیڈر نے زور دیا کہ "انڈو پیسفک میں ڈیٹرنس مضبوط ہے اور امریکی محکمہ دفاع خطے میں اپنی فورسز کی موجودہ پوزیشن اور آپریشنز کے بارے میں پراعتماد ہے۔

امریکہ تائیوان ریلیشنز ایکٹ، تین مشترکہ اعلامیوں اور چھ یقین دہانیوں کے تحت رہنمائی کے ذریعے اپنی دیرینہ "ایک چین" پالیسی پر کاربند ہے۔

یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی عکاسی کرتا ہے۔