جون 2014 سے دسمبر 2017 کے دوران دہشت گرد گروپ آئی ایس آئی ایل یا داعش نے عراقی علاقے کے بڑے حصوں پر قبضہ کر لیا۔
اس عرصے کے دوران ان افراد کے ساتھ بڑے پیمانے پر بد سلوکی کی گئی جو ان کے زیر کنٹرول رہنے پر مجبور تھے۔ یہ بد سلوکی جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کے زمرے میں آتی ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ ان دہشت گردوں کو اور خاص طور پر ان کے لیڈروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ ایسا صرف احتساب ہی کے لیے ہی ضروری نہیٕں بلکہ داعش کے ظلم و ستم کی جانب بھی توجہ دلانا بھی ضروری ہے۔
اس مقصد کے لیے منصفانہ اور شفاف کارروائی درکار ہے جو نہ صرف داعش کی نظریاتی اساس کو نقصان پہنچائے گی بلکہ اس کے پھیلاؤ کو روکنے میں بھی معاون ہوگی۔
یہی وجہ ہے کہ اگست 2017 میں عراق کی حکومت نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے میں مدد دے کہ داعش کو عراق میں کئے گئے جرائم کے لیے ذمے دار ٹھہرایا جائے۔
اقوامِ متحدہ نے اس کے ردِعمل میں داعش کی جانب سے کیے گئے جرائم کے احتساب یا جواب دہی کے لیے ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جسے یو این آئی ٹی اے ڈی کہا جاتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم یا یو این آئی ٹی اے ڈی نے عراق کی حکومت کے ساتھ کام کرتے ہوئے داعش کے جبرو ستم کے بارے میں شہادتیں اکٹھی کیں۔
دوسرے کاموں کے ساتھ ساتھ انہوں نے 67 اجتماعی قبروں کی کھدائی بھی کی۔ ٹیم نے داعش کے بارے میں ملنے والے پیپر ریکارڈ کے 18ملین صفحات کو کمپیوٹر میں درج کیا اور داعش سے ملنے والی ڈیجیٹل ڈیوائسز سے مواد اخذ کیا۔
اقوام متحدہ میں امریکہ کے ڈپٹی پولیٹیکل قونصلر تنگ وو نے کہا کہ ’’یو این آئی ٹی اے ڈی کے کام کی اہمیت کے بارے میں کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
امریکہ کے ڈپٹی پولیٹیکل قونصلر تنگ وو کہتے ہیں کہ ’’ہم دس سال کا عرصہ مکمل کر رہے ہیں جب داعش نے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں رہائش پذیر گروپوں کے خلاف انسانیت مخالف جرائم اور نسل کشی جیسے اقدام کا ارتکاب کیا۔
متاثر ہونے والے ان گروپوں میں یزیدی، مسیحی، کرد، شیعہ مسلمان اور دیگر کمیونیٹیز کے ساتھ ساتھ سنی مسلمان بھی شامل تھے۔ ایک دہائی کے بعد بھی یہ کمیونیٹیز انصاف کی متلاشی ہیں۔
قونصلر وو کہتے ہیں کہ ’’امریکہ ان کے ساتھ ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ان جرائم کی جوابدہی عراق اور خطے میں امن و سلامتی میں معاون ثابت ہوگی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’’یو این آئی ٹی اے ڈی عراقی حکام کو وسیع پیمانے پر مدد فراہم کرتا ہے۔ یہ عراقی عدالتی نظام کی صلاحیت کو بڑھاتا ہے۔
اجتماعی قبروں کی کھدائی میں سہولت فراہم کرتا ہے؛ ثبوت جمع کرتا ہے؛ متاثرین کے خاندانوں اور زندہ بچ جانے والوں کو شامل کرتا ہے؛ اور مظالم کے مرتکب افراد کی شناخت اور داعش کے ڈھانچے اور کارروائیوں کو سمجھنے میں معاون میدان جنگ کے شواہد کا تجزیہ کرتا ہے۔
قونصلر وو نے کہا کہ سنگین بین الاقوامی جرائم کے مرتکب افراد کو انصاف سے بچنا نہیں چاہیے۔
امریکہ (اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل) کے اراکین پر زور دیتا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مل کر کام کریں کہ ہم داعش کے جرائم کے جواب میں انصاف کی فراہمی کے لیے اپنی اجتماعی کوششیں جاری رکھیں۔ ہم تمام ممکنات کے لیے سٹیک ہولڈرز کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔
یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔