اقوامِ متحدہ میں روسی مندوبین نے دسمبر کے وسط میں سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا جس کا مقصد یوکرین کو ہتھیاروں کی منتقلی کے بارے میں شکایت کرنا تھا۔ یوکرین روسی جارحیت کے خلاف اپنا دفاع کر رہا ہے۔ پچھلے 18 مہینوں میں روس نے اس طرح کے کئی اجلاس بلائے اور اب یہ تیسرا موقع ہے کہ روس نے پھر ایسا ہی کیا ہے۔
اقوامِ متحدہ میں امریکی مشن کے پولیٹیکل منسٹر کونسلرسفیر جان کیلی نے کہا کہ روس اس موضوع پر بار بار اجلاس بلاتا ہے کیوں کہ اسے یوکرین میں اپنے مقاصد کو پورا کرنے میں ناکامی ہوئی ہے۔
سفیر کیلی نے کہا کہ ’’روس نے یوکرین کو مدد فراہم کرنے والے درجنوں ممالک کے مقاصد پر بھی سوال اٹھانے کی کوشش کی ہے اور یوکرین کے اپنے دفاع کا حق استعمال کرنے پر بھی استفسار کیا ہے۔
سفیرجان کیلی کہتے ہیں کہ ’’روس آج اس جنگ کو ختم کر سکتا ہے۔ وہ یوکرین کے عوام کے خلاف اپنے جنگی جرائم اور مظالم کو ختم کر سکتا ہے۔ یوکرین کے شہروں اور شہری انفراسٹرکچر پر اپنے حملے بند کر سکتا ہے۔ یوکرینی بچوں کی جبری ملک بدری کو روک سکتا ہے اور انہیں ان کے اہلِ خانہ کو واپس کر سکتا ہے۔ وہ اپنی افواج کو واپس بلا سکتا ہے اور اس کونسل کے مستقل رکن کے طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھانا شروع کر سکتا ہے۔
سفیر کیلی نے کہا کہ اس کے بجائے روس یوکرین کو غیر قانونی حملوں سے اپنے دفاع کے لیے درکار امداد پر تنقید کرتا ہے۔ سفیر کیلی کا کہنا ہے کہ ’’اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ روس نے یوکرین کے خلاف اپنی جارحیت کے لیے ایسے چینلز کے ذریعے اسلحہ خریدا ہے جو سلامتی کونسل اور اس کی قراردادوں کے تحت واضح طور پر ممنوع قرار دیے گئے ہیں۔
شمالی کوریا نے روس کو فوجی سازوسامان اور گولہ بارود کے 1,000 سے زیادہ کنٹینرز فراہم کیے ہیں جس کے نتیجے میں یوکرین میں روس کی غیر قانونی جنگ سے انسانی ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔ شمالی کوریا اس اعانت کے بدلے میں روسی فوج کی ٹیکنالوجی اور مدد کا خواہاں ہے تاکہ اپنی فوجی صلاحیتوں اور مقاصد کو آگے بڑھا سکے۔
سفیر کیلی نے کہا کہ کریملن نے ایران سے بھی فوجی ساز و سامان حاصل کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ
تہران روس کو گائیڈڈ فضائی بم اور توپ خانے کا گولہ بارود فراہم کر رہا ہے جو یوکرین میں زندگیوں کو ختم کرنے کے لیے مہلک سامان ہے۔ ہم نےایرانی یو اے ویز یعنی ان آرمڈ ایرئیل ویہیکل کی روس کو منتقلی کے بارے میں واضح ثبوت فراہم کیے ہیں جو اس وقت مہیا کیے گئے جب سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کے تحت اس طرح کی منتقلی پر پابندیاں عائد تھیں۔
سفیر جان کیلی کا کہنا ہے کہ ’’روس کے لیے اس کونسل کے سامنے یہ دعویٰ کرنا منافقت کی انتہا ہے کہ یوکرین کے دفاع کی جائز حمایت تنازع کو طول دینے کا باعث ہے جب کہ اس نے اپنی جارحانہ جنگ کو ہوا دینے کے لیے سلامتی کونسل کی قراردادوں کی بار بار خلاف ورزی کی ہے۔
یہ ایسی قراردادیں ہیں جن پر روس نے خود اتفاق کیا ہے۔ سفیر کیلی نے مزید کہا کہ ’’ہم ایک بار پھر روس پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنی جارحیت ختم کرے اور یوکرین کے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ علاقوں سے واپس چلا جائے۔
یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔