Accessibility links

Breaking News

خواتین کو پسماندہ رکھنے کی قیمت


فائل فوٹو
فائل فوٹو

طالبان نے 21 اگست کو ایک اور سخت قانون جاری کیا جس کا مقصد افغانستان کے عوامی حلقوں سے خواتین اور لڑکیوں کی موجودگی یہاں تک کہ ان کی آوازوں کوبھی ختم کرنا تھا۔

یہ صورتِ حال واضح طور پر افغان خواتین کے انسانی حقوق پر ایک گھناؤنا حملہ ہے۔ تاہم ملک کی معیشت پر اس صورتِ حال کے شدید منفی اثرات کم واضح ہیں۔

امریکہ سمیت اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے 11 ارکان کی طرف سے 18 ستمبر کو جاری کیے گئے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’افغان خواتین ایک پرامن، مستحکم ، خوشحال اور جامع افغانستان کے لئے امکانات کو یقینی بنانے میں ایک ناگزیر کردار ادا کرتی ہیں اور اس میں ملک کی دیر پا ترقی بھی شامل ہے۔

اقوامِ متحدہ کے مطابق درحقیقت افرادی قوت سے خواتین کو خارج کرتے ہوئے افغان معیشت کو سالانہ مجموعی گھریلو پیداوار کا پانچ فی صد نقصان پہنچے گا اور اگر خواتین کو اعلیٰ تعلیم تک رسائی سے محروم رکھا جاتا ہے تو 2066 تک افغانستان کی معیشت آج کی مجموعی گھریلو پیداوار کے دو تہائی حصے کے مساوی سے محروم ہو جائے گی۔

اقوامِ متحدہ میں امریکہ کی نائب نمائندہ ڈوروتھی شے نے کہا کہ ’’بد نما آمریت کی طرف مسلسل واپسی کا رجحان بہت پریشان کن ہے اور یہ بڑھتی ہوئی غربت اور کمزور معیشت کے تناظر میں سامنے آتا ہے۔ افغانستان میں طالبان کی بڑھتی ہوئی پابندیوں کی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کے دیرینہ معاشی اور سماجی مسائل مزید بڑھ گئے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’’امریکہ افغان عوام کی انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پرعزم ہے اور ہم نے باہمی دلچسپی کے شعبوں میں طالبان سمیت افغان عوام کے ایک وسیع حلقے کے ساتھ رابطہ کاری پالیسی کی حمایت جاری رکھی ہے۔

سفیر شے نے کہا کہ ’’امریکہ امدادی کوششوں کو مربوط کرنے اور طالبان اور دیگر افغانوں کے ساتھ بین الاقوامی رابطوں کو آسان بنانے میں اقوامِ متحدہ کے کردار کو مرکزی حیثیت سے دیکھتا ہے۔

تاہم اقوام متحدہ کو قرارداد 2721 کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے جو دیگر مسائل کے علاوہ ایک ایسے افغانستان کے لیے سیاسی روڈ میپ کی ضرورت پر زور دیتا ہے جو اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن قائم کرے اور اس عمل میں افغان خواتین کی بامعنی شرکت کو یقینی بنانے کی ضرورت کو تسلیم کرتا ہو۔

سفیر شے کا کہنا ہے کہ ’’یہ واضح طور پر وہ راستہ نہیں ہے جس پر طالبان اس وقت چل رہے ہیں۔ عدم برداشت کے ہر نئے حکم کے ساتھ وہ افغان عوام اور عالمی برادری سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔

سفیر شے نے کہا کہ ’’ہماری طرف سےامریکہ طالبان کے ساتھ اپنے رابطوں میں واضح بیان کرتا آ رہا ہے کہ حالات کو معمول پر لانے کی جانب بامعنی اقدامات ان کے اپنے لائحہ عمل پر مبنی ہوں گے جن میں تمام افغانوں کے حقوق کا احترام بھی شامل ہے اور اس میں ملک کے سیاسی مستقبل پر ایک جامع عمل میں شمولیت اور دہشت گردی کے خلاف اپنے وعدوں کو پورا کرنا شامل ہے۔

یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی عکاسی کرتا ہے۔-

XS
SM
MD
LG