امریکہ کے بین الاقوامی ترقی کے ادارے یا یو ایس ایڈ نے اپنی تشکیل کے چھ دہائیوں سے زیادہ عرصے میں معلوم کیا ہے کہ مقامی تنظیموں کے متعدد مخصوص فوائد ہیں جو انہیں زیادہ تر بحرانوں کو بہتر طریقے سے نمٹنے کی صلاحیت دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یو ایس ایڈ مقامی سطح پر انسانی امداد کی ایک نئی پالیسی شروع کر رہا ہے۔
یو ایس ایڈ کی انسانی امداد کے لیے قائم مقام ڈپٹی اسسٹنٹ ایڈمنسٹریٹر ڈینئل میٹون اسمتھ نے کہا کہ ’’پالیسی میں متعدد مقاصد شامل ہیں۔
لیکن حقیقت میں یہ اس بارے میں ہے کہ ہم مقامی شراکت داروں کے لیے براہ راست فنڈنگ کیسے بڑھاتے ہیں، ان کی صلاحیت کو کس طرح مضبوط کرتے ہیں اور انسانی امداد کے سلسلے میں ان کے قائدانہ کردار کوکس انداز میں آگے بڑھاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’’انسانی امداد کے لیے ضرورت مند افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور ایک ایسا نقطۂ نظرہے جو واقعی انسانی ہمدردی سے منسلک مقامی عوامل پر توجہ مرکوز کرتا ہے اور انہیں ہمارے ردِعمل کے مرکز میں رکھنا واقعتاً ایک نازک وقت کا تقاضہ ہے۔
ڈینئل میٹون اسمتھ نے کہا کہ اس کی متعدد اچھی وجوہات ہیں جن کے باعث یو ایس ایڈ مقامی کمیونٹیز کو اپنی انسانی سرگرمیوں میں مرکزی مقام دینے کے لیے پرعزم ہے۔ ’’اصل مقصد تو یہ ہے کہ ہر سطح پر ہم ان شراکتوں کو کیسے بہتر بنا سکتے ہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’’مقامی تنظیمیں اور کمیونٹیز بحران کو بہتر طور پر سمجھتی ہیں اور اس سے انہیں مسائل کو حل کرنے کے بارے میں ایک منفرد انداز مل جاتا ہے۔
وہ عام طور پر ایمرجنسی میں جواب دینے والے پہلے لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے متاثرہ کمیونٹیز کے ساتھ شراکت داری اور تعلقات ہیں اوروہ مقامی حالات کا جائزہ لے سکتے ہیں جو ہمارے ردِعمل کے لیے واقعی قابلِ قدر ہے۔ لہذا ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ مقامی اور قومی تنظیمیں جو پہلے سے ہی فلاحی ردِعمل میں صفِ اول پر ہیں وہ اپنے اس تجربے اوراپنی قیادت سے ہمارے کام میں مزید مدد کیسے فراہم کر سکتی ہیں۔
ڈینئل مٹون اسمتھ نے کہا کہ ’’کامیابی مختلف سیاق و سباق میں مختلف نظر آ سکتی ہے کیوں کہ ہم بہت سے مختلف ماحول میں کام کرتے ہیں۔ ہمارے سامنے جانے کا راستہ بھی ہے لیکن ہم اس سفر کے لیے پرعزم ہیں اور ہم اس پالیسی پرکام کرنے اور آنے والے کئی سالوں تک اپنے فلاحی ردِعمل میں مقامی قیادت کی مزید شمولیت کے منتظر ہیں۔
یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی عکاسی کرتا ہے۔