افغان خواتین کی صورتِ حال پر طالبان پر دباؤ ڈالنے کا موقع

فائل فوٹو

اقوامَ متحدہ کی متعدد رپورٹوں کے مطابق افغانستان میں انسانی صورتَ حال انتہائی سنگین ہے۔ ملک کی 50 فی صد سے زیادہ آبادی تقریباً 23.7 ملین افراد کو انسانی فلاحی امداد کی ضرورت ہے۔

تقریباً 30 لاکھ بچوں کو بھوک کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ اپریل اور مئی کے دوران تقریباً 120,000 لوگ سیلاب اور مٹی کے تودے گرنے سے متاثر ہوئے۔ سیلابوں اور لینڈ سلائیڈ نے پورے دیہات کو تباہ کر دیا جب کہ 340 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ طالبان نے اقوامِ متحدہ کے خصوصی ایلچی اور خصوصی نمائندوں کے زیرِ اہتمام افغانستان کے بارے میں بلائے گئے تیسرے اجلاس میں شرکت کی دعوت قبول کر لی جو 30 جون اور یکم جولائی کو قطر کے شہر دوحہ میں ہوا۔

دوحہ میں بحث کے موضوعات میں افغانستان کے متعدد بحران اور ان کی نوعیت پر غور شامل ہے۔ (یہ بحران) طالبان کی طرف سے خواتین کے حقوق کو دبانے سے مربوط ہیں اور ان میں اضافہ ہوا ہے۔

اقوامِ متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق افغان خواتین کو حکمناموں، پالیسیوں اور منظم طریقوں سے ہدف بنایا جاتا ہے۔’’اس کے بنیادی حصے میں صنفی امتیاز اور خواتین پر بڑے پیمانے پر جبر شامل ہے۔

اقوامِ متحدہ میں خصوصی سیاسی امور کے لیے امریکی متبادل نمائندے رابرٹ ووڈ نے کہا کہ ’’اقوامِ متحدہ کے آزاد اور الگ الگ اداروں نے اب طالبان کی جانب سے انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزیوں کی جانب توجہ دلا رہے ہیں۔

رابرٹ ووڈ کہتے ہیں کہ ’’ان رپورٹوں میں پوری تفصیل سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ طالبان کی جانب سے خواتین کو معاشرے سے مٹانے کی ادارہ جاتی کوششیں؛ بڑے پیمانے پر صنفی ظلم و ستم؛ معذور افراد کے ساتھ ناروا سلوک اور نسلی، مذہبی اور لسانی اقلیتوں کے ساتھ ساتھ ایل جی بی ٹی کیو آئی پلس افراد کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں (کیسے کی جارہی ہیں)۔

سفیر ووڈ نے کہا کہ ’’عالمی برادری کو افغان عوام کا ساتھ دینا جاری رکھنا چاہیے۔ خاص طور پر خواتین، لڑکیوں اور پسماندہ کمیونٹیز کے اراکین کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ ہمیں ان جابرانہ اقدامات کو تبدیل کرنے، انصاف اور بدسلوکی کے لیے احتساب کے لیے زور دینے اوریہ بات واضح کرنے پر زور دینا چاہیے کہ انسانی حقوق کو خاموش یا ان سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔

افغانستان میں لڑکیوں کو چھٹی جماعت کے بعد اسکول جانے سے روک دیا جاتا ہے۔ سفیر ووڈ کہتے ہیں کہ ’’خواتین اور لڑکیوں پر طالبان کی پابندیوں سے ہونے والے نقصان میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں کی جا سکتیَ۔

سفیر ووڈ کہتے ہیں کہ ’’طالبان کی طرف سے سیکنڈری اسکولوں میں لڑکیوں کے داخلے پر پابندی کے بعد اب ایک ہزار سے زیادہ دن ہو چکے ہیں۔ اگر اس قسم کی پابندیوں کو جاری رہنے دیا گیا تو اس کے بھرپور اور نقصان دہ اثرات آنے والے کئی سالوں تک پورے ملک کو متاثر کریں گے۔

سفیر ووڈ نے کہا کہ ’’ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ دوحہ میں خواتین اور سول سوسائٹی کے شرکا کی آواز بھی شامل ہو۔ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں ہونے والی بات چیت میں ان کے خدشات کو اجاگر کیا جانا چاہیے۔

یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔