امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی صورتِ حال سے متعلق تازہ ترین امریکی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد مستقبل کے بارے میں امریکی وژن کو آگے بڑھانا ہے ’’جہاں ہر کوئی اپنے عقائد کا انتخاب کرنے اوران پر عمل کرنے کے قابل ہو۔‘‘
امریکی وزیر خارجہ کہتے ہیں کہ ’’مذہبی آزادی کا احترام دوسرے حقوق کو تقویت دیتا ہے جیسے آزادی سے بولنے کا حق پرامن اجتماع (اور) سیاست میں حصہ لینے کی صلاحیت کا حق دیتا ہے۔ اس آفاقی حق کا تحفظ لوگوں کو اپنا اظہار کرنے، اپنی پوری صلاحیت کو استعمال کرنے اور اپنی برادریوں میں خدمت کرنے کا اختیار دیتا ہے۔
وزیرِ خارجہ بلنکن کہتے ہیں کہ اس کے باوجود آج بھی لاکھوں لوگوں کے لیے مذہبی آزادی خطرے میں ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’’پیو ریسرچ سینٹر نے حال ہی میں معلوم کیا ہے کہ 2007 میں مذہبی آزادی کی صورتِ حال کا جائزہ شروع ہونے کے بعد سے عالمی سطح پر مذہب کے حوالے سے حکومتی پابندیاں اپنی بلند ترین سطح پر ہیں۔
آج دنیا بھر کی حکومتیں افراد کو نشانہ بنا رہی ہیں، عبادت گاہوں کو بند کر رہی ہیں، کمیونٹیز کو زبردستی نقل مکانی پر مجبور کر رہی ہیں اور لوگوں کو ان کے مذہبی عقائد کی وجہ سے قید کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ ممالک مخصوص قسم کے مذہبی لباس پر پابندی لگاتے ہیں۔ دوسرے اسے لازمی بنا دیتے ہیں۔ کچھ حکومتیں اپنے عقیدے اور مذہبی آزادی کی وکالت کی وجہ سے اپنی سرحدوں سے باہر افراد کو نشانہ بنا رہی ہیں۔
بلنکن کا کہنا ہے کہ ’’ہر علاقے میں لوگوں کو حکومتوں اور اپنے ساتھی شہریوں دونوں کی جانب سے مذہبی بنیاد پر تشدد اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ (اس حوالے سے) انھیں سکولوں سے باہررکھا جا سکتا ہے، نوکریوں سے انکار کیا جا سکتا ہے، ہراساں کیا جا سکتا ہے، مارا پیٹا جا سکتا ہے یا اس سے بھی بدتر (سلوک کیا جا سکتا ہے۔)
پرتشدد انتہا پسند گروہ بھی اپنے مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
وزیر خارجہ بلنکن نے جون میں روس کے علاقے داغستان میں گرجا گھروں اور ایک عبادت گاہ پر حملے کی طرف اشارہ کیا جس میں پولیس، عام شہری اور ایک پادری مارے گئے تھے۔
انہوں نے توجہ دلائی کہ سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے خوفناک دہشت گردانہ حملے اور اس کے نتیجے میں غزہ میں ہونے والے تنازعے کے بعد سے پوری دنیا میں یہود دشمنی اور اسلاموفوبیا دونوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ ایسی بدسلوکی کو دستاویزی شکل دینا، نفرت اور بربریت کے خلاف کھڑا ہونا، ہر شخص کے لیے مذہبی آزادی کے حق کا دفاع کرنا امریکی خارجہ پالیسی میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔
انسان ہونے کے حوالے سے یہ کام ایک لازمی عامل کی حفاظت کے بارے میں ہے: خود سے بالا تر چیز کو تلاش کرنے کی صلاحیت اور ہم جس چیز پر یقین رکھتے ہیں اسے منتخب کرنے کا حق ہمیں یہ سیکھنے کا اختیار دیتا ہے کہ ہم خود سے مختلف افراد کے بارے میں بھی سوچ سکیں اور اپنے مشترک احساسات کا احترام کریں۔
اینٹنی بلنکن نے مذہبی اسکالر ہیوسٹن اسمتھ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہم دنیا کے پائیدار مذاہب کو ان کے بہترین انداز میں سمجھ سکیں تو ہمیں نسل انسانی کی اصل حکمت کا پتہ چلتا ہے۔
یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔