اٹلی میں جی سیون کے اختتامی اجلاس میں اپنے مشترکہ بیان میں برطانیہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، اور امریکہ کے رہنماؤں نے کئی اہم مسائل پر ایک متحدہ پالیسی تشکیل دی۔
ان میں روس کی جارحیت کے خلاف یوکرین کی حمایت کی مسلسل ضرورت، چین کی ضرورت سے زائد صنعتی اہلیت سے پیدا ہونے والا سیکیورٹی خطرہ اورشمالی کوریا کی طرف سے روس کی جنگی مشین کو تقویت دینے والی اشیا کی فراہمی جیسے امور شامل تھے۔
سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر دہشت گردانہ حملے کی بربریت اور صدر جو بائیڈن کی طرف سے جامع معاہدے کی حمایت (پر بھی بات ہوئی) جو بحران کے پائیدار خاتمے کا باعث بنے گی۔
افریقی ممالک میں پائیداری اور جمہوری نظم ونسق میں مدد کے لیے اضافہ کرنے کا عزم (بھی اس پالیسی میں شامل تھا)۔
ایران کے عدم استحکام پیدا کرنے والے اقدامات بھی جی سیون رہنماؤں کی توجہ کا مرکز تھے۔
انہوں نے ایران پر زور دیا کہ وہ ’’جوہری کشیدگی کو ختم کرے اور یورینیم کی افزودگی کی ایسی جاری سرگرمیوں کو روکے جس کا کوئی قابلِ اعتبار سویلین جواز نہیں ہے۔‘
جی سیون نے ایران سے مطالبہ کیا کہ وہ جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے کے ساتھ سنجیدہ بات چیت کرے اور ’’قائل کرنے والی یقین دہانیاں فراہم کرے کہ (ایران کا) جوہری پروگرام پرامن ہے۔
انہوں نے ایران کے ادارے کے ساتھ تعاون کی موجودہ کمی پر ’’سخت تشویش‘‘ کا اظہار کیا۔
جی سیون رہنماؤں نے ایران پراس بات کے لیے بھی زور دیا کہ وہ یوکرین میں روس کی جنگ کے حوالے سے مدد کرنا بند کرے اور ’’بیلسٹک میزائل اور متعلقہ ٹیکنالوجی کی منتقلی نہ کرے کیوں کہ ایسا کرنے سے ’’ایک اہم مواد میں اضافہ اور یورپی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ‘‘ لاحق ہو گا۔
رہنماؤں نے خبردار کیا کہ اگر ایران نے ایسے ہتھیاروں کی منتقلی میں پیش رفت کی تو ایران کے خلاف ’’نئے اور اہم اقدامات‘‘ اختیار کیے جائیں گے۔
مزید برآں جی سیون نے خبردار کیا کہ اگر ایران نے ’’بدنیتی پر مبنی سرگرمیوں اور مشرقِ وسطی میں عدم استحکام پیدا کرنے والی کارروائیوں کو ختم نہ کیا تو جی سیون اس کے ردِعمل میں مزید پابندیاں لگانے اور دیگر اقدامات کرنے کے لیے تیار ہے۔
آخر میں جی سیون رہنماؤں نے ’’ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، خاص طور پر خواتین، لڑکیوں اور اقلیتی گروہوں کے خلاف کارروائیوں پر گہری تشویش کا اعادہ کیا۔
انہوں نے ایران کی قیادت سے مطالبہ کیا کہ ’’تمام غیر منصفانہ اور من مانی نظر بندیوں کو ختم کیا جائے۔ ان میں دوہری شہریت رکھنے والے اور غیر ملکی شہری شامل ہیں۔
انہوں نے ایران کے اپنے شہریوں کی ’’ناقابل قبول ہرا سگی‘‘ کی بھی مذمت کی۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے ایران کے بارے میں جی سیون رہنماؤں کے سخت مؤقف کو سراہا۔
انہوں نے اعلان کیا کہ ’’ہم جی سیون کے مؤقف کا خیرمقدم کرتے ہیں جس میں ایران سے لاحق خطرے اور اس کی عدم استحکام کی سرگرمیوں کے بارے میں ایک متحد آواز کے ساتھ بات کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ’’ہم نے اس مؤقف پر محض جی سیون ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر اور دنیا بھر کے دیگر ممالک سے اپنے شراکت داروں میں اتفاق رائے دیکھا ہے۔
یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔