جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے یا آئی اے ای اے کے مطابق ایران نے اپنی نتانز اور فوردو ایٹمی تنصیبات پر افزودہ یورینیم کی پیداوار کی شرح میں ایک بار پھر 60 فی صد تک اضافہ کر دیا ہے۔
یہ شرح ہتھیاروں کی تیاری کے لیے درکار درجے کے قریب ہے۔ ایران نے 2023 کے وسط میں جوہری افزودگی کی پیداوار کو سست کر دیا تھا۔ لیکن اب یہ سست روی کا عمل تبدیل ہو گیا ہے۔
امریکہ، فرانس، جرمنی اور برطانیہ کی حکومتوں کےایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’یہ نتائج ایران کے ایک قدم پیچھے ہٹنے کی نشاندہی کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ایران اپنی افزودہ یورینیم کی ماہانہ پیداوار کی شرح تین گنا بڑھا کر 60 فی صد تک کر دے گا۔
ایران کی طرف سے پیداوار میں کمی کے رجحان کو تبدیل کرنے کا یہ قدم ایک ایسے وقت پر اٹھایا جا رہا ہے جب مشرق وسطیٰ میں ایران کے پراکسی یا ٓلہ کار گروہ اسرائیل، امریکی افواج اور بین الاقوامی جہاز رانی پر حملے کر رہے ہیں۔
ان میں حماس، حزب اللہ، عراق اور شام میں سرگرم ملیشیا اور حوثی عسکریت پسند شامل ہیں۔ وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نے کہا کہ ’’ایران کی جوہری پیش رفت ایک ایسے وقت میں سب سے زیادہ تشویشناک ہے جب ایران کے حمایت یافتہ گروہ خطے میں خطرناک اور عدم استحکام پیدا کرنے والی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ان میں حالیہ دنوں میں ہلاکت خیز ڈرون حملے، عراق اور شام میں حملوں کی کوششیں اور بحیرہ احمرمیں تجارتی بحری جہازوں پر حوثیوں کے حملے شامل ہیں۔
امریکہ، فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے آئی اے ای اے کے نتائج کے بارے میں اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ ’’ایران کی طرف سے زیادہ افزودہ یورینیم کی پیداوار کا کوئی ٹھوس سویلین جواز نہیں ہے اور فوردو فیول افزودگی پلانٹ اور پائلٹ فیول انرچمنٹ پلانٹ کی رپورٹ کی گئی پیداوار ہتھیاروں کے پھیلاؤ سے متعلق اہم خطرات کی نشاندہی کرتی ہے۔"
ہم ایران کی جانب سے پیداوار کی شرح میں اضافے پر بھی نظررکھے ہوئے ہیں جس کی نشاندہی آئی اے ای اے نے گزشتہ سال کے شروع میں کی تھی۔
ایران کی جانب سے جنوری 2023 میں کیے گئے اضافے کے اعلان میں تاخیر نے شکوک کو جنم دیا ہے کہ کیا ایران آئی اے ای اے کے ساتھ مکمل دیانت داری سے تعاون کرنے پر آمادہ ہے یا نہیں۔
ایسے فیصلے ایک کشیدہ علاقائی تناظر میں ایران کی جانب سے لاپروائی پر مبنی رویے اور تناؤ میں کمی کرنے کی طرف غیر سنجیدہ طرز عمل کی عکاسی کرتے ہیں۔
ان چاروں ممالک نے ایران پر زور دیا کہ وہ اپنے حالیہ اقدامات کو واپس لے اور اپنے جوہری پروگرام کی رفتار کم کرے۔ انہوں نے ایران سے مطالبہ کیا کہ وہ ’’آئی اے ای اے کے ساتھ مکمل تعاون کرے تاکہ یہ یقین دہانی کرائی جا سکے کہ اس کا جوہری پروگرام خصوصی طور پر پرامن ہے اور ستمبر 2023 میں معطل کیے گئے معائنہ کاروں کو ملک میں دوبارہ تعینات کرنے کی اجازت دی جائے۔
چاروں ملکوں نے اعلان کیا کہ ’’ہم سفارتی حل کے لیے پرعزم ہیں اور ایک بار پھر کہتے ہیں کہ ایران کو کبھی جوہری ہتھیار تیار نہیں کرنے چاہئیں۔
یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔