برما میں صحت کی سہولتوں کی اشد ضرورت

فائل فوٹو


برما میں ایک طرف جمہوری آزادیوں کو نقصان پہنچا ہے تو دوسری طرف اہم انسانی ضروریات کی عدم فراہمی نے بحران کو اور بھی شدید کر دیا ہے۔ یو ایس ایڈ کے معاون منتظم کریگ ہارٹ نے کانگریس کے روبرو شہادت دیتے ہوئے کہا کہ برما کی فوجی بغاوت نے ایسی خدمات کی فراہمی کی ضرورت کو مزید بڑھا دیا۔

صحت کے شعبے میں کام کرنے والے اہل کاروں میں سے تین چوتھائی کے قریب اپریل 2021 سے اس فوجی بغاوت کے خلاف احتجاجاً ہڑتال پر ہیں اور انہوں نے کام چھوڑ رکھا ہے۔ فوجی حکومت نے ان سینکڑوں ہڑتالی ہیلتھ ورکرز کو گرفتار اور ہراساں کرنے کی مہم چلا رکھی ہے۔ دسمبر 2021 تک 50 ہزار کے قریب ہیلتھ ورکرز ہڑتال پر تھے۔

یو ایس ایڈ صحت کے مراکز، غیر سرکاری اداروں اور نجی شعبے کی مدد سے صحت کی سہولتیں بہم پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے، خاص طور سے ان آبادیوں میں جو سرکاری عملے کی عدم دستیابی کی وجہ سے شدید متاثرہیں۔

جہاں تک کووڈ-19 کی مکمل ویکسی نیشن کا معاملہ ہے تو جنوب مشرقی ایشیا میں برما سب سے نچلی سطح پر ہے کووڈ-19 کی اومیکرون قسم بھی پھیلتی جا رہی ہے۔

ابھی تک برما میں کووڈ-19 کی ویکسین کی سہولت یا کوویکس کی الاٹ شدہ ایک کروڑ سات لاکھ ڈوزز پہنچائے نہیں جا سکے ہیں۔ موجودہ فوجی حکومت نے چھ کروڑ ڈوزز چین، بھارت اور روس سے حاصل کیے ہیں۔ 20فروری تک صرف 38 فی صد آبادی کو ویکسین کے دو ڈوز مل سکے ہیں۔ واضح رہے کہ ان اعداد وشمار کی بھی تصدیق کرنا ممکن نہیں ہے۔ معاون منتظم ہارٹ نے کہا کہ ویکسی نیشن کی رفتار کو بڑھانے کے لیے کو ویکس کی ڈوزز آزاد اور قابلِ اعتماد ذریعوں سے ہی فراہم کیے جانے چاہئیں، جن میں این جی اوز ،سول سوسائٹی، صحت کے ادارے اور نجی شعبے شامل ہوں۔

یو ایس ایڈ فنڈز برما کے لیے مختص کووڈ-19 ویکسین کی ڈوز لگوانےکے انتظامات کرنے لیے تیار ہے۔ اس کے علاوہ یو ایس ایڈ ویکسینیٹرز کی ایسی تربیت کی حمایت اور مدد کر رہا ہے، جن کے ذریعے عوام میں ویکسین کا ٹیکہ لگوانے کی ہچکچاہٹ کو ختم کیا جاسکے، ٹیسٹنگ اور کمونیٹی کلینکس میں علاج کیا جاسکے۔

تاہم برما میں صرف کوویڈ ۱۹ ہی صحت کا مسئلہ نہیں ہے۔ ملک میں تپ دق کا مرض بھی عام ہے، ہر ایک لاکھ افراد میں سے 338 تپ دق کے مریض ہیں، عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہ تعداد خطے کے مقابلے میں دوگنی ہے ، جب کہ عالمی سطح سے مقابلے میں یہ تین گنا ہے۔

پچھلے برسوں میں یو ایس ایڈ نے برما میں تپ دق کے کیسز کی شناخت اور اس کے علاج کی سہولتوں کو بڑھایا ہے اور اس کے نتیجے میں پچھلے عشرے کے دوران تپ دق کے کیسوں میں 50 فی صد تک کی کمی دیکھنے میں آئی۔

فوجی بغاوت کے بعد تپ دق کے کیسوں کے علاج اور کیسز کے بارے میں اطلاعات کی فراہمی آدھی رہ گئی۔ یو ایس ایڈ تپ دق کی تشخیص اورعلاج معالجے کی خدمات میں اضافہ کر رہا ہے اور سرکاری شعبے کے علاوہ دیگر مراکز کے ذریعے مریضوں تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے۔

یو ایس ایڈ اپنے نجی شراکت داروں کے ساتھ مل کر برما میں صحت سے متعلق حاصل شدہ کامیابیوں کو تحفظ دینے کے لیے سرگرم ہے۔ موجودہ حکومت اگر اپنے عوام کی ضروریات کو پورا کرنے سے غافل ہے تو امریکہ اس سلسلے میں خاموش نہیں بیٹھے گا۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**