برما کی فوجی حکومت کی طرف سے چار سیاسی کارکنوں کی پھانسیوں پرغم وغصے کا اظہار کرنے والے ممالک اورتنظیموں کے ساتھ امریکہ بھی شامل ہو گیا۔
وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے ایک تحریری بیان میں کہا کہ امریکہ برما کی فوجی حکومت کی طرف سے جمہوریت کے حامی کارکنوں اورمنتخب لیڈروں کو بنیادی آزادیوں کے استعمال کے حق کی پاداش میں انہیں پھانسی دینے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ برما میں فروری 2021 کی فوجی بغاوت کے بعد سے حکومت نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف تشدد کو جاری رکھا ہے جس میں 2,100 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے، 700,000 سے زیادہ بے گھر ہوئے اورہزاروں بے گناہ لوگوں کوحراست میں لیا گیا جن میں سول سوسائٹی کے ارکان اور صحافی بھی شامل ہیں۔
فوج کے کنٹرول والی عدالت میں کارروائی کے بعد ان چاروں کارکنوں کو پھانسی دی گئی۔
ایک پریس بریفنگ میں محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے پھانسیوں کو انسانی حقوق کی گھناؤنی خلاف ورزی کے طور پر بیان کیا اور انہوں نے "تمام شراکت داروں اوراتحادیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ برما کی حکومت کے اقدامات کی مذمت کرنے اور حکومت اور اس کے حامیوں پر دباؤ بڑھانے میں ہمارا ساتھ دیں۔
انہوں نے کہا کہ اس حکومت کے ساتھ معمول کے مطابق کسی قسم کا تعلق قائم نہیں ہو سکتا۔ "ہم تمام ممالک پر زوردیتے ہیں کہ وہ برما کو فوجی سازوسامان کی فروخت پرپابندی لگائیں، اس حکومت کی ساکھ کو بین الاقوامی طور پرقابل اعتبارقرار دینے سے گریز کریں، ہم جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم آسیان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی اہم مثال کو برقرار رکھتے ہوئے علاقائی تقریبات میں برما کے صرف غیرسیاسی نمائندوں کو شرکت کی اجازت دے۔
ترجمان پرائس نے کہا کہ تمام آپشنز ہمارے سامنے ہیں کہ کس طرح حکومت کی تشدد کو برقرار رکھنے کی صلاحیت اور تحصیلاتِ زر کوختم کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنائے گا کہ برمی عوام کے بجائے حکومت پرزیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کے لیے اضافی اقدامات کو مربوط کیا جائے۔
وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ امریکہ برما کے لوگوں کی آزادی اور جمہوریت کے حصول میں ان کے ساتھ کھڑا ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ان لوگوں کی جمہوری امنگوں کا احترام کرے۔ جنہوں نے یہ دکھا دیا ہے کہ وہ فوجی حکومت کی آمریت کے تحت مزید ایک دن بھی زندگی گزارنا نہیں چاہتے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**