روس کو یوکرین سے نکل جانا چاہیے

فائل فوٹو

روس نے 2014 میں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یوکرین کے جزیرہ نما کرائمیا پر قبضہ کر لیا۔

اقوامِ متحدہ میں قائم مقام امریکی نائب نمائندے، ایمبیسیڈر جیفری ڈی لارینٹس نے کہا ہے کہ’’یہ اس وقت بھی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی تھی اور آج بھی ایسا ہی ہے۔

سفیر ڈی لارینٹس نے کہا کہ نو سال بعد روس نے اپنی مسلح افواج کو یوکرین کے علاقے میں مزید اندر تک داخل کر دیا ہے۔

روس یوکرین میں وہی حربہ استعمال کر رہا ہے جو اس نے 2014 میں کیا تھا۔ وہ ایک جعلی ریفرنڈم کے ذریعے یوکرین کے مزید علاقوں کو ضم کرنےکے لیے انہی کوششوں کا سہارا لے رہا ہے۔

روس ان خطوں میں رہنے والے لوگوں کو ’’پاسپورٹ کے ذریعے ‘‘علاقائی حکومتوں میں قابض روسی حکام کی تعیناتی کے ساتھ ، یوکرینی باشندوں کو روس کی افواج میں بھرتی کرنے اور دیگر ناجائز طریقوں کے ذریعے مزید محکوم بنانے کی کوشش کرتا ہے۔

روس نے گزشتہ سال فروری سے لے کر اب تک ہزاروں یوکرینی مردوں، عورتوں اور بچوں کو ہلاک کیا ہے۔ لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر دیا ہے اور ملک کی نصف سے زیادہ انرجی گرڈ کو تباہ کر دیا ہے۔

روس کی افواج نے اپنے قبضے والے علاقوں میں بڑی تعداد میں یوکرینی شہریوں کو گرفتارکیا ہے اور حراست میں رکھا ہوا ہے۔

ان میں سے اکثر کو جنسی تشدد یا ایذا رسانی کا نشانہ بنایا گیا ہے اور ان سے رابطہ کرنے نہیں دیا گیا ہے۔

درحقیقت اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے لیے ہائی کمشنر نے حال ہی میں اپنی تازہ ترین معلومات پیش کی ہیں۔

سفیر ڈی لارینٹس نے کہا کہ ’’انہوں نے ان معلومات کو چونکا دینے والی اطلاعات کے طور پر بیان کیا۔ ’’متعدد ہولناک معلومات میں‘‘ کئی ایسے کیسز کا اندراج بھی
شامل ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ روس کی مسلح افواج نے زیر حراست شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا ہے۔

سفیر ڈی لارینٹس کہتے ہیں کہ ’’یوکرین کے کچھ حصوں پر روس کے قبضے کے نتیجے میں ارد گرد کے جوہری پلانٹس اور دیگر اہم بنیادی ڈھانچے کو بھی خطرہ لاحق ہوا ہے۔

سفیر کا مزید کہنا ہے کہ ’’یہ واضح ہے کہ روس کی زاپورژیا نیوکلیئر پاور پلا نٹ پر عسکریت پسندی جیسے اقدامات عالمی جوہری تحفظ اور سلامتی کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ ان اقدامات میں ری ایکٹر کی عمارتوں کے اوپر اس کی فوجی موجودگی بھی شامل ہے۔

سفیر ڈی لارینٹس نے کہا کہ ’’اس جنگ کے اثرات تباہ کن رہے ہیں نہ صرف یوکرین کے لوگوں کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لوگوں کے لیے بھی کیونکہ توانائی اور خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’’روس کی طرف سے بحیرہ اسود کے اناج معاہدے میں اپنی شرکت کی معطلی دنیا کے سب سے زیادہ خطرے کے شکار لوگوں کے لیے خود غرضی پر مبنی ایک اور دھچکا تھا۔

ہم تمام رکن ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ روس پر زور دیں کہ وہ اپنا فیصلہ واپس لے، مذاکرات دوبارہ شروع کرے، اس معاہدےکی توسیع کرے اور اسے مکمل طور پر نافذ کرے۔‘‘

سفیر ڈی لارینٹس کہتے ہیں کہ ’’ یوکرین کے خلاف روس کی جنگ اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ہم ایک بار پھر روس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ یوکرین کے خود مختار علاقے سے اپنی فوجیں نکالے اور اس جنگ کو ختم کرے۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**