روسی صدر ولادیمیر پوٹن 17 جولائی کو بحیرہ اسود کے اناج معاہدے سے دست بردار ہو گئے۔
اس معاہدے کے تحت یوکرین کو اپنی زرعی مصنوعات کو بحیرہ اسود کی اپنی بندرگاہوں کے ذریعے بلا روک ٹوک بھیجنے کے اجازت تھی۔
اقوامِ متحدہ کے حکام نے معاہدے کے ایک حصے کے طور پر روس سے خوراک اور کھاد کی برآمدات میں مدد کرنے پربھی اتفاق کیا۔
معاہدے سے علیحدگی کے فیصلے کا جواز پیش کرتے ہوئے پوٹن نے دعویٰ کیا کہ مغرب نے معاہدے کے تحت اپنے عہد کی پاسداری نہیں کی۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے پابندیوں کے دفتر کے سربراہ جیمز اوبرائن نے کہا کہ روس کے اس جوازکے ساتھ ایک مسئلہ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’’روس ریکارڈ مقدار میں اناج برآمد کر رہا ہے۔ روسی اناج ایسوسی ایشن نے بتایا ہے کہ گزشتہ سال کے دوران اناج کی برآمدات 61.8 ملین ٹن تک پہنچ گئیں جو میرے خیال میں کسی بھی سال کے مقابلے میں 10 سے 15 فی صد زیادہ ہے۔
لہٰذا اگر دنیا کے لیے خوراک کی فراہمی ہی ایک پیمانہ ہے تو روس کی برآمد میں مدد کے لیے ہم نے اقوامِ متحدہ اور ترکیہ کے ساتھ جو عمل شروع کیا وہ نتیجہ خیز ہے ایک ایسے نظام کے بارے میں روس کی شکایات معمولی الزامات کے مترادف ہیں جو بہترین انداز میں کام کر رہا ہے۔
سفیر اوبرائن نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ ’’روس پابندیوں کے بارے میں تبصرے کرتا ہے۔ مجھے اس بات پر زور دینا ہے کہ امریکہ کی طرف سے روسی خوراک اور کھاد کی برآمدات پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
سفیر اوبرائن نے کہا کہ ’’ موجودہ صورتِ حال کا مقصد خوراک اور کھاد کی دستیاب مقدار کو کم کرنا ہے تاکہ قیمتیں بڑھیں اور روس اپنے کچھ مطالبات پر توجہ حاصل کر سکے۔
مختلف اقسام کے اناج کا تقریباً 10 فی صد یوکرین سے عالمی منڈی میں آتا ہے۔ یوکرین نے دنیا کے غریب ترین ممالک کے لیے ورلڈ فوڈ پروگرام کی فراہم کردہ خوراک کا نصف حصہ بھی مہیا کیا ہے۔
روس کے یوکرین پر حملہ کرنے کے بعد وہ برآمدات رک گئیں اور قیمتیں بڑھ گئیں۔ لیکن بلیک سی گرین انیشیٹو پر دستخط کے نتیجے میں قیمتوں میں کمی ہوئی۔
سفیر اوبرائن نے کہا کہ ’’ اسی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے روس نے دو کام کرنے کا فیصلہ کیا۔
سفیر او برائن کہتے ہیں کہ ’’روس نے بحیرہ اسود کے اناج معاہدے کو ختم کر دیا اور یوکرین کی بندرگاہوں سے باہر جہاز رانی کی ناکہ بندی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین کے اندر اور باہر جہازوں کی کسی بھی نوعیت کی آمدو رفت کو فوجی کارروائی قرار دیا جائے گا اور اس نے خوراک ذخیرہ کرنے کی تنصیبات پر بھی بمباری شروع کردی۔
سفیر اوبرائن نے کہا کہ ’’روس جو اقدام اختیار کر رہا ہےاور ان کا نتیجہ صرف خوراک کی فراہمی میں کمی ہی نہیں ہے بلکہ اس کے نتیجے میں قیمتوں میں بھی کافی حد تک اضافہ ہوا ہے۔
ان تمام حالات کے باوجو د سفیر کہتے ہیں کہ ’’میں پر امید ہوں کہ یوکرینی اناج عالمی منڈیوں تک پہنچ جائے گا۔ اس میں ہمیں کچھ وقت لگے گا۔ اس میں کچھ اخراجات بھی شامل ہوں گے لیکن ہم روس کو بحیرہ اسود پر قبضہ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**