روس نے سترہ جولائی کو بلیک سی گرین انیشیٹو نامی بحیرہ اسود کے اناج معاہدے میں اپنی شرکت معطل کر دی ہے۔
یوکرین اور روس کے درمیان اس معاہدے کی ثالثی ترکیہ اور اقوامِ متحدہ نے کی تھی اور جس کے تحت بحری جہازوں کو حملوں کے خطرے کے بغیر یوکرین کی بندرگاہوں میں داخل ہونے اور جانے کی اجازت تھی۔
ایسا ان حالات کے پیشِِ نظر کیا گیا جب دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کو غیر معمولی طور پر غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے اور کچھ تو قحط کا شکار ہو رہے ہیں۔
یو ایس ایڈ کی منتظم سمانتھا پاور نے کہا کہ ’’دنیا کے سب سے زیادہ خطرے کے شکارلوگوں کے لیے خوراک کی فراہمی سے انکار کے نتائج انسانی طور پر تباہ کن ہیں۔
سمانتھا پاور کا کہنا ہے کہ ’’ہمیں یہ بات واضح طور پر سمجھنی چاہیے کہ بحیرہ اسود میں اناج کے معاہدے سے کیا حاصل ہوا ہے۔
اس اقدام کے ذریعے برآمد ہونے والی گندم کا دو تہائی حصہ ترقی پذیر ممالک کو بھیجا گیا۔
بلیک سی گرین انیشیٹو کے ذریعے مجموعی طور پر برآمد ہونے والی اشیا کا 55فی صد کم آمدن والے ممالک کو دیا گیا۔ لہٰذا اس معاہدے کے تعطل سے نہ صرف یوکرین کے کسانوں کو اس کی قیمت چکانا ہو گی بلکہ اس کے نتائج پوری دنیا کے لوگوں کے لیے بدتر ہوں گے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ بنیادی طور پر بلیک سی گرین انیشیٹو کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا کہ ’’اس کی ضرورت کی صرف ایک ہی وجہ تھی کہ روس نے یوکرین پر حملہ کیا اور پھر بندرگاہوں کی ناکہ بندی کرکے یوکرین سے دنیا بھر میں اناج کی فراہمی کا سلسلہ روکنے کا فیصلہ کیا۔
روس کی اس کارروائی کے نتیجے میں خوراک کو ہتھیار بنانے اور اسے ایک آلے کے طور پر استعمال کرنے کی صورتِ حال پیدا ہوئی۔
یوکرین کے خلاف جنگ میں ہتھیار کے طور پراس کا استعمال ایسی جگہوں پرخوراک کی فراہمی مشکل بنا دے گا جہاں اس کی اشد ضرورت ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ’’ حتمی بات تو یہ ہے کہ یہ غیردانشمندانہ ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اس معاہدے کو جلد از جلد بحال کیا جانا چاہیے۔ مجھے امید ہے کہ ہر ملک اس کا بغور جائزہ لے رہا ہے۔
یہ ممالک دیکھیں گے کہ روس ان لوگوں کو خوراک کی فراہمی سے انکار کا ذمہ دار ہے جنہیں پوری دنیا میں خوراک کی اشد ضرورت ہے اورایک ایسے وقت میں جب متعدد ممالک کو افراط زر کا سامناہے، اس معاہدے میں تعطل کے نتیجے میں قیمتوں میں اضافہ بھی ہوا ہے۔
امریکی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اسٹریٹجک کمیونیکیشن کوآرڈینیٹر جان کربی نے کہا کہ ’’ ہم روس کی حکومت پر زور دیتے ہیں کہ وہ فوری طور پر اپنا فیصلہ واپس لے۔‘‘
جان کربی کا کہنا ہے کہ ’’امریکہ کے پاس یہ راستہ ہے کہ ہم دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں تاکہ روسی اور یوکرینی اناج باقی دنیا تک پہنچ سکے۔ اس کے تحت اس بات کو یقینی بنانا بھی شامل ہے کہ ہماری پابندیوں کے ذریعے روسی پروپیگنڈے کے برعکس، روسی خوراک یا کھاد کو نشانہ نہیں بنایا جاتا۔‘‘
مسٹر کربی نے کہا کہ ’’ امریکہ یوکرین سے اناج کو ان منڈیوں تک پہنچانے کی کوششوں کی حمایت جاری رکھے گا جہاں اس کی اشد ضرورت ہے چاہے اس کی فراہمی کے لیے دوسرے راستوں کا ہی انتخاب کیا جائے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**