فشنگ انڈسٹری میں جبری مشقت

فائل فوٹو

گزشتہ چند برسوں میں سمندری خوراک کی مانگ آبادی میں اضافے کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں ماہی گیری بہت زیادہ کی جا رہی ہے، خاص کر ایسے پانیوں میں جہاں آسانی سے رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ تاہم نتیجتاً مچھلیوں کے اسٹاک جب کہ کم ہو رہے ہیں، ماہی گیروں کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اپنے شکار کے لیے سمندر میں مزید آگے تک جائیں۔ اس قسم کے سفر کی وجہ سے ایندھن اور مزدوری کے اخراجات میں اضافہ ہو جاتا ہے اور بعض کم دیانت دار کاروباری زیادہ منافع حاصل کرنے کے لیے غیر قانونی طریقے اختیار کرتے ہیں۔

اخراجات میں کمی کرنے کے لیے ایک طریقہ جس پر انحصار کیا جاتا ہے، وہ بیگار ہے۔ سمندری خوراک کی سپلائی میں انسانی تجارت کے بارے میں ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماہی گیری کے شعبے میں انسانوں کی تجارت کا بہت زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ یہ رپورٹ مشترکہ طور پر محکمۂ خارجہ اور سمندر اور ماحولیات سے متعلق قومی انتظامیہ (این او اے اے) نے امریکی کانگریس کو پیش کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ماہی گیری کو خطرناک خیال کیا جاتا ہے اور اس سلسلے میں اکثر بہت زیادہ کم ماہر، تارکینِ وطن اور آسانی سے تبدیل کیے جانے والے مزدوروں پر انحصار کیا جاتا ہے جنھیں انسانی تجارت کا خطرہ درپیش رہتا ہے۔ یہ مجرمانہ طریقۂ کار آسانی سے چھپایا جاسکتا ہے اس لیے کہ ماہی گیری قدرتی طور پر الگ تھلگ علاقوں میں کی جاتی ہے۔ ماہی گیری کی کشتیاں سمندروں میں اکثر مہینوں اور حتیٰ کہ برسوں گزارتی ہیں۔ بے گار کے ایسے ماحول میں کام کرنے والے ماہی گیروں کے لیے فرار ہونا اکثر ناممکن ہوجاتا ہے، اور نہ ہی وہ اپنے ساتھ کی جانے والی بدسلوکی سے آگاہ کرسکتے ہیں۔

انسانی تجارت کا شکار ہونے والے افراد بار ہا جذباتی اور جسمانی زیادتی کا سامنا کرتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر موت واقع ہوجاتی ہے۔ انھیں انتہائی طویل دورانیے تک کام کرنا پڑتا ہے، نہایت ناگفتہ بہ حالات میں رہنا پڑتا ہے اور تنخواہیں بہت کم ادا کی جاتی ہیں یا سرے سے ادائیگی ہی نہیں کی جاتی۔

ماہی گیری کی صنعت میں بے گار کے استعمال کا زیادہ امکان سیاسی طور پر غیر مستحکم ملکوں میں ہوتا ہے جہاں شہری آزادیوں اور کارکنوں کے حقوق کے لیے قانونی تحفظ کمزور ہوتا ہے اور بدعنوانی نہایت عروج پر ہوتی ہے اور جرائم، تشدد اور غربت کا سامنا ہوتا ہے۔ لہٰذا رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ امریکہ کو چاہیے کہ وہ اس لعنت کو ختم کرنے کے لیے چار اقدامات پر عمل درآمد کرے۔

اول تو یہ کہ امریکہ سمندری خوراک کی سپلائی کے شعبے میں قومی اور بین الاقوامی طور پر انسانی تجارت کو ختم کرنے کے لیے ایک جامع سرکاری پروگرام ترتیب دے۔ دوسرے یہ کہ امریکہ کو چاہیے کہ وہ ایسے اقدامات کو فروغ دے جن سے ان ملکوں میں انسانی کی تجارت کا قلع قمع کیا جاسکے جہاں ماہی گیری کی صنعت میں بے گار کا مسئلہ درپیش ہے۔ تیسرے یہ کہ امریکہ کو چاہیے کہ ان معاملات کا پتہ چلانے کی عالمی کوششوں میں مدد کرے اور ان کو وسعت دے۔ ساتھ ہی دوسرے متعلقہ اداروں کے علاوہ ماہی گیری کی صنعت اور این جی اوز سے رابطے میں رہے۔ اور آخری بات یہ کہ ان اقدامات کی مدد سمندری خوراک کی سپلائی کے شعبے میں محکمۂ خارجہ اور این او اے اے کی موجودہ کوششوں کو مضبوط کیا جائے اور انھیں آگے بڑھایا جائے تاکہ انسانوں کی تجارت کے مسئلے سے نمٹا جاسکے۔

سمندری خوراک کے شعبے میں انسانوں کی تجارت کا خاتمہ کرنا، انسانی حقوق اور جرم کے حوالے سے اہم معاملہ ہے اور ساتھ ہی امریکہ کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات کا حصہ ہے۔ مذکورہ نئی رپورٹ سمندری خوراک کے شعبے میں انسانوں کی تجارت کو ختم کرنے کے لیے امریکہ کی کوششوں کو بڑھانے اور ان میں رابطہ پیدا کرنے کے سلسلے میں ایک ضروری اقدام ہے۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**