امریکہ نے بارہا چینی کمیونسٹ پارٹی کے سنکیانگ میں ایغور اور دوسرے مسلمان اقلیتی گروہوں کے افراد کے خلاف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے۔
وہاں عوامی جمہوریہ چین جو کچھ کر رہا ہے، اس کے بارے میں وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ چین نے حراستی کیمپوں میں دس لاکھ سے زیادہ لوگوں کو قید کر رکھا ہے اور ان پر دوسری زیادتیاں بھی کی جا رہی ہیں جن میں ان کی مستقل نگرانی، آبادی پر ظالمانہ کنٹرول اور جبری مشقت شامل ہے۔ یہ سب کچھ اس صدی کا ایک بدنما دھبہ ہے۔
محکمۂ خارجہ نے گزشتہ برس چینی کمیونسٹ پارٹی کے متعدد عہدیداروں کے خلاف سنکیانگ میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر پابندیاں عائد کی تھیں۔ ان عہدیداروں میں پولٹ بیورو کے ممبر چن چنگوا، جو کمیونسٹ پارٹی کے علاقائی سیکریٹری ہیں، سنکیانگ کی سیاسی اور قانونی کمیٹی کے پارٹی سیکریٹری شو ہائی لون اور سنکیانگ کے پبلک سیکیورٹی بیورو کے موجودہ پارٹی سیکریٹری وانگ منگ شان شامل ہیں۔
اس کے علاوہ محکمۂ تجارت نے چین کے 48 اداروں کے خلاف برآمدی پابندیاں بھی نافذ کردی ہیں جن میں علاقائی سرکاری ایجنسیاں، مقامی پولیس اور سیکیورٹی ٹیکنالوجی کی کمپنیاں شامل ہیں جو سنکیانگ میں چینی کمیونسٹ پارٹی کی جبر واستبداد کی مہم میں ساز باز کرنے میں ملوث ہیں۔
امریکہ میں کسٹم اور بارڈر پروٹیکشن (سی بی پی) بھی سرگرم رہا ہے اور اس نے ستمبر 2019 کے بعد سے سنکیانگ کے علاقے سے مختلف مصنوعات کے حوالے سے آٹھ احکامات یا ودھ ہولڈ ریلیز آرڈر (ڈبلیو آر او) جاری کیے تھے تاکہ ان اشیا کے امریکہ میں داخلے کو روکا جا سکے جو جبری مشقت سے تیار کی گئی ہیں۔
ان احکامات کے تحت امریکہ میں داخلے کے تمام مقامات پر سی بی پی کے حکام کو ایک ہدایت دی گئی تھی کہ وہ مصنوعات کی حوالگی نہ کریں اور انہیں روک دیں۔
سی بی پی نے 14 ستمبر کو پانچ ڈبلیو آر او جاری کیے جن میں ان کمپنیوں کو نشانہ بنایا گیا جو سوتی مصنوعات، ملبوسات، ٹیکنالوجی اور بالوں کے لیے استعمال میں آنے والی اشیا تیار کرتی ہیں اور جن میں سب کی سب سنکیانگ میں بے گار کے ذریعے تیار کی جاتی ہیں۔ ایک ڈبلیو آر او ایسی تمام مصنوعات کے لیے تھا جو سنکیانگ میں ایک بے گار کیمپ میں تیار کی جا رہی تھیں۔
ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی (ڈی ایچ ایس) کے قائم مقام ڈپٹی سیکریٹری کین کوچی نیلی نے کہا ہے کہ اس کارروائی کے ذریعے ڈی ایچ ایس غیر قانونی اور غیر انسانی جبری مشقت کا قلع قمع کر رہا ہے۔ یہ ایک قسم کی جدید طرز کی غلامی ہے جس کے ذریعے ایسی مصنوعات تیار کی جا رہی ہیں جنہیں چین کی حکومت بعد میں امریکہ کو برآمد کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
سی بی پی کے قائم مقام کمشنر مارک مورگن نے کہا ہے کہ مصنوعات کو روکنے سے متعلق یہ احکامات بین الاقوامی برادری کو واضح پیغام بھیجتے ہیں کہ ہم امریکہ آنے والی مصنوعات کی تیاری میں جبری مشقت کے غیر قانونی، غیر انسانی اور استحصالی طور طریقوں کو برداشت نہیں کریں گے۔
وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ عوامی جمہوریہ چین کو بھی یہ پیغام سن لینا چاہیے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ وہ سرکاری سر پرستی میں جبری مشقت کی اپنی کارروائیاں بند کر دے اور تمام لوگوں کے انسانی حقوق کا احترام کرے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**