Accessibility links

Breaking News

کسی دوسرے ملک میں چینی محنت کشوں کی آمد سے پیدا مسائل


چین اور ایتھوپیا کے محنت کش ایتھوپیا میں چین کے تعاون سے تعمیر ہونے والی ایک شاہراہ کی افتتاحی تقریب میں شریک ہیں۔ (فائل فوٹو)
چین اور ایتھوپیا کے محنت کش ایتھوپیا میں چین کے تعاون سے تعمیر ہونے والی ایک شاہراہ کی افتتاحی تقریب میں شریک ہیں۔ (فائل فوٹو)

کئی ممالک میں لوگوں نے اس وقت خوشی کا اظہار کیا جب ان کے سرکاری عہدیداروں نے کارخانوں، بندرگاہوں اور دوسرے بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر کے لیے چینی حکومت اور چینی کمپنیوں کے ساتھ جن کا اکثر ایک ہی مطلب ہے، سمجھوتے کیے۔

تاہم امریکہ کے معاون وزیرِ خارجہ برائے جمہوریت، انسانی حقوق اور محنت رابرٹ ڈیسٹرو نے اس جانب توجہ دلائی ہے کہ ان سودوں سے نئے روزگار کے بیشتر خواب حقیقت کا روپ نہ دھار سکے۔ انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر ایتھوپیا میں کارکن چین سے لائے جاتے ہیں جس سے ایتھوپیا کے اندر اپنے مزدوروں کے روزگار کو نقصان پہنچتا ہے۔

یہی صورتِ حال ویت نام سے لے کر جمیکا تک دوسرے ملکوں میں بھی دیکھنے میں آتی ہے جہاں چین نے اپنے لاکھوں کارکنوں کی تعیناتی کی ہے۔

لیکن یہ محض مقامی مزدور ہی نہیں ہیں جنہیں چینی حکومت اور کمپنیوں کی پالیسیوں سے نقصان پہنچا ہے۔ خود چینی مزدور بھی اکثر اس کا شکار بنتے ہیں اور انہیں قابلِ افسوس اور غیر محفوظ حالات میں بیگار کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں اکثر و بیشتر فیس یا سیکیورٹی کی رقم جمع کرانی پڑتی ہے جس کی وجہ سے قرضوں کے نتیجے میں انہیں بے جا دباؤ درپیش ہوتا ہے۔ ان کے اوقات کار طویل ہوتے ہیں اور ان کی تنخواہیں اکثر کم ہوتی ہیں اور بہت زیادہ تاخیر سے ملتی ہیں۔

معاون وزیرِ خارجہ نے کہا کہ چینی کارکنوں کو انسانوں کا نہیں بلکہ اشیا کا درجہ دیا جاتا ہے۔

امریکہ میں اسی نوعیت کے ایک واقعے میں مارچ 2019 میں ایک سابق چینی سفارت کار اور امریکہ کے اندر ایک چینی تعمیراتی کمپنی کے سربراہ ڈینگ ژانگ کو نیویارک میں ایک وفاقی جیوری نے بیگار اور متعلقہ الزامات میں سزا سنائی تھی۔

ایف بی آئی کے نائب ڈائریکٹر انچارج ولیم سوئینی کہتے ہیں کہ وہ بھی آخر انسان ہیں جنہیں ہفتے میں سات دن تنخواہ کے بغیر کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور درجنوں دوسرے افراد کے ساتھ زبردستی غلیظ گھروں میں رہائش اختیار کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

محافظین ان کی نگرانی کرتے ہیں جو فرار ہونے کی صورت میں ایسے کارکنوں کا تعاقب کرتے ہیں۔ مسٹر ژانگ اور دوسروں نے ہو سکتا ہے یہ سوچا ہو کہ وہ انسانوں کی تجارت اور بیگار کی کارروائی سے اس ملک میں بچ جائیں گے۔ اس لیے کہ چینی حکومت جس ملک کے اندر کام کرتی ہے وہ وہاں کے قوانین کو نظر انداز کرتی ہے۔ لیکن اب انہیں ایسے معاملات میں اپنے جرائم کے لیے انصاف کا سامنا کرنا ہو گا۔

چینی حکومت اور ان لوگوں کی جانب سے جو اس کے لیے جواب دہ ہیں، قانون کی حکمرانی کے احترام سے پہلو تہی نہ صرف چین کے اندر ظالمانہ کنٹرول میں رہنے والے چینی شہریوں پر اس کے دور رس مضر اثرات مرتب کرے گی بلکہ دنیا بھر کے مزدوروں پر بھی جن میں چینی کارکن شامل ہیں، اس کا اثر پڑے گا۔

امریکہ شفافیت اور احتساب کے لیے دباؤ ڈالتا رہے گا تاکہ تمام لوگوں کے حقوق اور ان کی بنیادی آزادیوں کو جن میں ان کی محنت مزدوری کے حقوق شامل ہیں، تسلیم کیا جائے اور ان کا احترام کیا جائے۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**

XS
SM
MD
LG