نگرانی کی صلاحیت رکھنے والی ٹیکنالوجی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی ان خطرات میں بھی اضافہ ہوا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے اس کا استعمال ہو سکتا ہے۔ جمہوریت، انسانی حقوق اور محنت کے قائم مقام پرنسپل نائب معاون وزیرِ خارجہ اسکاٹ بزبی نے کہا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ امریکی محکمۂ خارجہ نے امریکی کمپنیوں کے لیے یہ رہنما اصول جاری کیے ہیں کہ وہ کس طرح غیر ملکی حکومتوں کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے ان مصنوعات یا خدمات کے غلط استعمال سے بچاؤ کر سکتی ہیں۔
مصنوعات یا خدمات کے ذریعے چاہے نگرانی کی صلاحیت سے ارادی یا غیر ارادی طور پر فائدہ اٹھانا مقصود ہو یا نہ ہو، لیکن ان میں یہ امکان بہر حال ہوتا ہے کہ وہ ملک کی اقتصادی، دفاعی اور سماجی فلاح و بہبود میں مثبت کردار ادا کر سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایسی مصنوعات یا خدمات سے انتخابات کے نظام میں دخل اندازی سے تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے۔
لیکن اکثر و بیشتر نگرانی کی ٹیکنالوجی اور مصنوعات کا غیر ملکی حکومتیں غلط استعمال کرتی ہیں۔ انہیں اختلافِ رائے کو خاموش کرنے، انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں کو ہراساں کرنے، اقلیتی برادریوں کو ڈرانے دھمکانے، غلط کارروائیوں پر خبردار کرنے والوں کی حوصلہ شکنی، آزادانہ اظہارِ رائے پر قدغن لگانے، سیاسی مخالفین، صحافیوں اور وکلا کو نشانہ بنانے یا من مانے اور غیر قانونی طور پر نجی زندگی میں مداخلت کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
بعض صورتوں میں غیر ملکی حکومتیں ایسی مصنوعات یا خدمات کو پوری آبادی کی من مانے طور پر غیر قانونی جاسوسی کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
قائم مقام پرنسپل نائب معاون وزیرِ خارجہ بزبی نے کہا ہے کہ ان میں چین ایک ایسا ملک ہے جس نے انٹرنیٹ کے معاملے میں ایک نہایت محدود طریقۂ کار اختیار کر رکھا ہے اور انسانی حقوق کے متعلق بین الاقوامی معیار کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نگرانی کرنے والی ٹیکنالوجی کو استعمال میں لا رہا ہے۔
اس سلسلے میں سنکیانگ میں جاسوسی کے لیے اعلیٰ ٹیکنالوجی کا بے دھڑک استعمال کیا جا رہا ہے۔ جہاں عوامی جمہوریہ چین نے ایغور، نسلی قازق اور دوسرے مسلمان اقلیتی گروہوں کے خلاف جبر کی مہم جاری رکھی ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں دوسری حکومتیں بھی اپنے شہریوں کے خلاف اسی ٹیکنالوجی کو استعمال میں لا رہی ہیں جن میں ایران، وینزویلا اور 2019 کی وال اسٹریٹ جنرل کی ایک تحقیق کے مطابق الجزائر، یوگینڈا اور زیمبیا شامل ہیں۔
آج سے پہلے کبھی بھی یہ بات اتنی زیادہ اہم نہیں رہی کہ امریکہ کے کاروباری ادارے ایسی پالیسیوں پر عمل درآمد کریں جن سے ان کی مصنوعات کے غلط استعمال کو روکا جا سکے۔
قائم مقام پرنسپل نائب معاون وزیرِ خارجہ بزبی نے کہا کہ ہمارے لیے لازم ہے کہ ہم ایسی اختراعات میں پیش رفت جاری رکھیں جس سے انسانی حقوق کے معاملے میں ہمارے نقطۂ نظر میں معاونت ہو۔ اس میں نجی زندگی میں من مانی یا غیر قانونی مداخلت سے تحفظ کا حق، اظہارِ رائے کی آزادی اور قانون کی حکمرانی کا احترام شامل ہے۔
ان کے بقول ہم امریکہ کی کاروباری برادری کے ساتھ کام کرنے اوراس رہنما اصولوں پر عمل درآمد کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کے متمنی ہیں کہ امریکی کمپنیاں امریکی اقدار کے عظیم تر پہلووں کی ترجمانی بدستور جاری رکھیں گی۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**