تقریباً دو سال کے عرصے میں پہلی بالمشافہ میٹنگ میں دنیا کی بڑی معیشتوں پر مشتمل جی-20 کے رہنماؤں نے ان بہت سے نہایت سنگین مسائل پر تبادلۂ خیال کیا جن کو حل کرنے کی ضرورت ہے، جب کہ دنیا کوویڈ-19 کی عالمگیر وبا سے نکل رہی ہے۔
صدر جو بائیڈن نے کہا کہ یہ ایک مشکل سال تھا جس کے دوران بڑے عالمی چیلنجز درپیش تھے۔ ان میں سے اہم مسائل کا تعلق عالمگیر وبا کو ختم کرنے، ایک وسیع تر اور پائیدار معیشت کی بحالی کے لیے اقدامات کرنے اور موسمیاتی تغیر کے بحران سے نمٹنے جیسے معاملات سے تھا۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ ہم نے ان میں سے ہر مسئلے پر خاصی پیش رفت کی اور اس کی ایک وجہ امریکہ کا وہ عہد ہے جس کا اظہار اس نے مذاکرات کی میز پر کیا۔
ان میں بعض نہایت سنجیدہ تبادلۂ خیال کا محور ان ممکنہ طریقوں پر تھا کہ عالمی معیشت کو بدحالی سے کس طرح نکالا جائے۔ اقتصادی بدحالی میں رکاوٹ کے بڑے مسائل میں دنیا بھر میں تجارت میں سست روی شامل ہے جس کی وجہ رسد کی روانی میں رکاوٹیں اور کثیر قومی کارپوریشنوں کی جانب سے ٹیکس سے بچنے کی کارروائیاں ہیں۔
صدر بائیڈن نے اس جانب توجہ دلائی کہ کووڈ-19 کی عالمگیر وبا کی وجہ سے سامان کی نقل و حمل میں زبردست خلل پڑا ہے۔ میں نے شراکت داروں کے ایک وسیع اتحاد سے ملاقات کی ہے اور اس بات پر تبادلۂ خیال کیا ہے کہ مال کی فوری نقل و حمل میں رکاوٹ سے جس کا دنیا کو سامنا ہے کس طرح نمٹا جائے۔ اور مستقبل میں اس پریشانی سے خود کو کس طرح محفوظ کیا جائے چاہے وہ عالمگیر وبا کی شکل میں ہو، موسمیاتی تبدیلی ہو یا دوسری تباہ کاریاں ہوں۔
جی-20 کے رہنماؤں نے عہد کیا کہ وہ جاری مسائل کا گہرا جائزہ لیتے رہیں گے جن میں سامان کی نقل و حمل میں خلل شامل ہے اور اقتصادی بحالی کے لیے قومی سطح پر اضافی اقدامات کو برقرار رکھا جائے گا۔
ساتھ ہی انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ تاریخی بین الاقوامی ٹیکس کے نظام میں اصلاحات کی جائیں گی تاکہ ٹیکسوں کا ایک سے زیادہ منصفانہ اور مستحکم طریقۂ کار وضع کیا جا سکے۔ اصلاحات میں کثیرملکی کمپنیوں پر کم سے کم 15 فی صد کا عالمی ٹیکس شامل ہے تاکہ انہیں منافع کو ایسے مقامات پر منتقل کرنے سے روکا جا سکے جہاں ٹیکس کم ہیں۔ اصلاحات میں ٹیکسوں کے حقوق کے دوبارہ ضروری تعین کا معاملہ بھی شامل ہے جس سے جدید کاروباری دنیا کے حقائق کی عکاسی ہوتی ہو۔ صدر بائیڈن نے کہا کہ یہ ہمارے تمام ملکوں کے لیے ایک ناقابلِ یقین کامیابی ہے۔
اس کے بجائے کہ ممالک کارپوریٹ ٹیکس کو کم کر کے سرمایہ کاری کو پر کشش بنانے کی خاطر ایک دوسرے سے مسابقت کریں، پندرہ فی صد کی کم سے کم حد مقرر کی جائے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ بڑی کارپوریشنیں اپنا منصفانہ حصہ ادا کریں، چاہے ان کا صدر دفتر کہیں بھی ہو، اور وہ سمندر پارملکوں میں اپنے منافع کو نہ چھپا سکیں۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ ہم تاریخ کے ایک اہم موڑ پر ہیں۔ بہت کچھ تبدیل ہو رہا ہے۔ میز پر بہت سے مہرے حرکت میں ہیں اور وہ دوبارہ کس طرح اپنی جگہ بناتے ہیں، اس کا انحصار ہمارے فیصلوں پر ہے، اور اس بات پر کہ دوسروں کے علاوہ امریکہ دنیا کی کس سمت میں قیادت کرتا ہے جس سے حالات میں بہتری آئے اور ملک کے اندر اور باہر کارکنوں کا معیارِ زندگی بلند ہو سکے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**