بدعنوانی اعتماد کو تباہ کر دیتی ہے، ترقی میں رخنہ ڈالتی ہے، جمہوری اداروں پر یقین کو کمزور کر دیتی ہے اور بین الاقوامی مجرمانہ سرگرمیوں کا راستہ ہموار کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے اقتصادی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور مسابقت کے عمل کو ٹھیس پہنچتی ہے۔
اس سے کاروبار کے لیے بھی اضافی بوجھ جنم لیتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق بدعنوانی سے عالمی پیمانے پر مجموعی قومی پیداوار کا پانچ فی صد ضائع ہو جاتا ہے۔ بدعنوانی ایک عالمی اور وسیع تر مسئلہ ہے۔ اس کا وجود نجی اور سرکاری دونوں شعبوں اور امیر اور غریب ملکوں میں یکساں طور پر پایا جاتا ہے۔ آخر کار اس کے نتائج لوگوں کو بھگتنے پڑتے ہیں جن میں اشیا کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، نجی شعبے میں سرمایہ کاری کی کمی، استحصالی حالاتِ کار، آلودگی، بجلی اور پانی کی کمی، تشدد، غیر محفوظ دوائیں اور جنگلات کی غیر قانونی کٹائی اور معدنیات کی کھدائی شامل ہے۔ بدعنوانی غیر متناسب انداز میں غریبوں، غیر مراعات یافتہ افراد اور خواتین پر اثر انداز ہوتی ہے۔
جون کے شروع میں اقوامِ متحدہ نے جنرل اسمبلی کا ایک خصوصی اجلاس منعقد کیا جس کا مقصد بدعنوانی کے خلاف جنگ کو تیز کرنا تھا تاکہ مؤثر اقدامات پر عمل درآمد کرتے ہوئے بدعنوانی کا پتا چلایا جا سکے، اس سے تحفظ مہیا کیا جا سکے، مقدمہ چلایا جا سکے، سزائیں دی جاسکیں اور بین الاقوامی تعاون کو مضبوط بنایا جا سکے۔
جیسا کہ اقوامِ متحدہ کی دسمبر 2018 کی جنرل اسمبلی کی قرارداد 73191 میں کہا گیا ہے کہ دو جون کو رکن ممالک نے عملی نوعیت کا سیاسی اعلان منظور کیا جو مستقبل کے لیے ایک طریقہ کار کا درجہ رکھتا ہے۔ اس دستاویز کو بدعنوانی کو روکنے، اس کا قلع قمع کرنے اور بین الاقوامی تعاون کو مضبوط کرنے کے اقدامات پر عمل درآمد اور مؤثر انداز میں چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اپنے مشترکہ عہد سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ موجودہ ڈھانچے، خاص کر بدعنوانی کےخلاف 2003 کے اقوامِ متحدہ کے کنونشن کو تقویت پہنچاتا ہے جو بدعنوانی کےخلاف دنیا کا احاطہ کرنے والا واحد بین الااقوامی معاہدہ ہے۔ جس کا قانونی طور پر اطلاق ہوتا ہے۔
اقوامِ متحدہ میں امریکہ کی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ اس وقت دنیا کی نظریں بدعنوانی سے بچاؤ اور اس کا قلع قمع کرنے کے لیے ہماری مشترکہ کوششوں پر لگی ہوئی ہیں۔
امریکہ اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہے کہ ہمارے لیے لازم ہے کہ ہم بدعنوانی کے خلاف بین الاقوامی ڈھانچے کا دفاع کریں، اس کی پاسداری کریں اور اسے مزید مستحکم کریں۔ سیاسی میثاق استحکام کے اس عمل کو قوت بخشنے کی جانب پہلا ضروری قدم ہے۔ انہوں نے کہا کہ بدعنوانی کے خلاف جنگ میں ہر ملک کو اپنی موجودہ ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہونا پڑے گا خاص طور پر ان ذمہ داریوں سے جن کا ذکر بدعنوانی کے خلاف اقوامِ متحدہ کے کنونشن یا 'یو این سی اے سی' میں کیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا سمجھوتہ ہے جس کی تقریباً سب ہی ملکوں نے توثیق کی ہے۔
اب ہم سب کے لیے چیلنج یہ ہے کہ اس عہد کو حقیقی اور عملی اقدامات کا روپ دیں۔ سفیر تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ ہمارے سیاسی میثاق کی جڑیں بدعنوانی کےخلاف موجودہ ڈھانچے میں پیوست ہیں۔ جو مسلمہ ترجیحات کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ ہمیں اس بات کی جانب راغب کرتی ہیں کہ ہم اپنی قوتوں اور ساتھ ہی کمزوریوں کا ادراک کریں تاکہ اس کنونشن کے تحت اپنی ذمہ داریوں اور وعدوں کو پورا کر سکیں۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**