ہر سال نومبر کی چوتھی جمعرات کو امریکی عوام یومِ تشکر مناتے ہیں۔ گرچہ یہ تعطیل روایتی طور پر فصلوں کی کٹائی کی تقریبات سے مماثل ہے جو ہزاروں سال پرانے زرعی معاشروں سے عبارت ہے، لیکن آج کے امریکہ میں یومِ تشکر اس تجربے کی یا د میں منایا جاتا ہے جب ابتدائی دنوں میں یورپی باشندے آج کی شمال مشرقی امریکی ریاستوں میں آباد ہوئے۔
یہ وہ زائرین تھے جو ایک کٹرمذہبی نظریات رکھتے تھے اور انگلستان کے کلیسا سے مکمل علیحدگی چاہتے تھے اور نتیجے کے طور پر انگلینڈ میں انہیں جبرواستبداد کا سامنا کرنا پڑا۔ لہذا ستمبر 1620 میں 102 آباد کاروں نے جن میں سے بیشتر زائرین تھے اور عملے کے تیس ارکان ایک بحری جہاز پر جس کا نام 'مے فلاور' تھا، برِ اعظم امریکہ کے لیے روانہ ہوئے۔
زائرین کو پتہ تھا کہ ان کی مہم کو انگریزوں کی حکومت کی حمایت حاصل نہیں تھی اور اس کے لیے قیادت کی تقرری بھی نہیں کی گئی تھی۔ لہٰذا انہیں خود آباد کاروں کی تائید کے ساتھ ان کا انتظام چلانا تھا۔ اسی وجہ سے مے فلاور کے لنگر انداز ہونے سے پہلے ہی مسافروں نے ایک دستاویز تیار کی جس میں آباد کاروں کے درمیان تعاون کا معاہدہ شامل تھا۔
دستاویز میں کہا گیا تھا کہ فیصلے ووٹنگ کے ذریعے کیے جائیں گے جو یورپی لوگوں کی جانب سے شمالی امریکہ میں جمہوریت کا پہلا تجربہ تھا۔ اس پر بالغ مرد مسافروں کی نصف سے زیادہ تعداد نے دستخط کیے، جن میں زائرین اور غیر زائرین دونوں شامل تھے اور اس طرح اکثریت نے اس کی توثیق کر دی۔
اصلی آباد کاروں میں سے آئندہ موسمِ بہار تک صرف 53 زندہ بچے۔ موسمِ گرما میں بہت اچھی فصل ہوئی اور 1621 کے موسمِ خزاں میں پلے متھ کالونی کے بقیہ ارکان اپنی بقا کی خوشی منانے کے لیے جمع ہوئے۔ اس وقت انہوں نے اپنے نئے وطن کو یہی نام دیا تھا۔ ان کےساتھ ومپا نواگ قبیلے کے مقامی باشندے، جن کی تعداد تقریباً 90 تھی شریک تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے خوراک کی فراہمی اور آباد کاروں کو یہ سکھا کر کہ حالات کا کس طرح مقابلہ کرنا تھا، گھروں کی تعمیر کا طریقہ بتایا جس سے انہیں زندہ رہنے میں مدد ملی۔
یہ تقریبات تین دن تک جاری رہیں جس کے دوران انگریز آباد کاروں اور اصلی قبائلیوں نے پر امن طور پر آپس میں میل جول اختیار کیا۔
اپنی ضیافت کے لیے زائرین نے مقامی سبزیاں، بطخ اور ہنس تیار کیے۔ ومپا نواگ قبائلیوں نے شکار کا گوشت مہیا کیا۔
یومِ تشکر کا تعلق، جیسا کہ یہ ان دنوں منایا جاتا ہے، انیسویں صدی سے ہے۔ امریکہ کی خانہ جنگی کے دوران اسے سرکاری چھٹی کی حیثیت دے دی گئی جس کا مقصد قومی اتحاد کو فروغ دینا تھا۔ اور آج کا روایتی ٹرکی ڈنر یومِ تشکر کا مقبول کھانا بن گیا اس لیے کہ اس سے کم خرچ میں پورے خاندان کی ضیافت کی جا سکتی ہے۔
گرچہ یہ چھٹی صدیوں کے دوران ارتقائی شکل اختیار کرتی رہی ہے، یومِ تشکر اور اس کے اس تاثر نے کہ اسے زائرین اور اصلی امریکی باشندے مل جل کر مناتے ہیں، اسے بین الثقافتی امن، مذہبی آزادی اور خوش حالی کی علامت بنا دیا ہے جس کی امریکہ بدستور اپنے شہریوں اور دنیا بھر سے آنے والے لوگوں کو پیش کش کرتا ہے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**