سینیٹر پال سائمن واٹر فار دی ورلڈ ایکٹ کی دسویں برسی اس سال منائی جا رہی ہے۔ اس ایکٹ کا نام ایک امریکی سیاست دان کے نام پر رکھا گیا ہے جس نے پانی کے عالمی بحران کا اندازہ لگایا اور اس کے مضمرات کو سمجھا تھا۔ انہوں نے امریکی کانگریس میں اس دباؤ کی قیادت کی جس کا مقصد دنیا بھر میں سب سے زیادہ کمزور کمیونٹیز کے لیے پانی اور صفائی ستھرائی تک رسائی میں اضافہ کرنا تھا۔
یو ایس ایڈ کی ایڈمنسٹریٹر سمانتھا پاور نے کہا کہ سینیٹر سائمن نے معدوم ہوتے بحیرہ ارال کے اپنے دورے کو یاد کرتے ہوئے امنڈتے ہوئے بغیر پانی کے طوفان کے لئے خوف کا اظہار کیا جس کے نتیجے میں امراض اور نقل مکانی کی بڑھتی شرح میں اضافہ اور اندرون اور بیرون ملک عدم استحکام بڑھنے کا خدشہ تھا۔
اگرچہ سینیٹر سائمن اپنی کوششوں کو بارآور ہوتے دیکھنے کے لیے زندہ نہیں رہے جب 2005 میں سینیٹر پال سائمن واٹر فار دی پؤر ایکٹ کو قانون کی حیثیت دے دی گئی۔ اس قانون کا مقصد امریکہ کی جانب سے ترقی پذیر ممالک میں محفوظ پانی اور صفائی ستھرائی تک رسائی کو غیر ملکی امدادی پروگراموںمیں مخصوص پالیسی کی شکل دینا تھا۔
واٹر فار ورلڈ ایکٹ کی منظوری کے ساتھ نو سال بعداس میں عالمی پانی، صفائی اور حفظانِ صحت کے پروگراموں کو شامل کرنے کے لیے اپ ڈیٹ کیا گیا۔ یو ایس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ یا یو ایس ایڈ کو اس پر عمل درآمدکرنے کا کام سونپا گیا تھا۔
ایڈمنسٹریٹر پاور نے کہا کہ ’’اس پس منظر کے ساتھ جب سے یہ واٹر فار ورلڈ ایکٹ قانون بن گیا ہے یو ایس ایڈ نے 42 ملین لوگوں کو صاف پانی تک رسائی میں مدد کی ہےجبکہ 38 ملین لوگوں کو صفائی کی خدمات تک رسائی حاصل ہے۔
ایڈمنسٹریٹر پاور کا کہنا ہے کہ بہر حال آج پانی تک رسائی کا فقدان پوری دنیا میں انتہائی بحرانوں کا سبب بنتا رہا ہے۔ سمانتھا پاور کہتی ہیں کہ ’’2010 سے 2019 تک پانی دنیا بھر میں تقریباً 300 تنازعات کا محرک بنا اور یہ محض آغاز ہے۔ اقوامِ متحدہ کا تخمینہ ہے کہ پانی کی قلت اس دہائی کے آخر تک تقریباً 700 ملین افراد کی نقل مکانی اور بے گھر ہونے کا باعث بنے گی۔
سن 2008 سے یو ایس ایڈ نے 70 ملین لوگوں کو پینے کے پانی کی خدمات تک رسائی حاصل کرنے میں مدد کی ہے جب کہ 55 ملین افراد کو دیرپا صفائی ستھرائی کے ذرائع فراہم کرنے میں مدد کی ہے۔
یو ایس ایڈ نے 2018 سے صفائی اور پانی کے شعبوں کے لیے 590 ملین ڈالر کی نئی فنڈنگ کو بھی فعال کیا ہے۔
وہ کہتی ہیں: ’’لیکن اب آرام کرنے کا وقت نہیں ہے۔ پانی کی قلت ایک اور بڑا چیلنج ہے کیوں کہ شدید موسم اور گرمی نے متعدد کمیونٹیز کو متاثر کیا ہے جنہیں حقیقت میں ماضی میں پانی کی کمی کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔
ایڈمنسٹریٹر پاور نے کہا کہ ’’ہمیں عالمی سطح پر پانی کے تحفظ کو فروغ دینے کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کرنا ہوگا اور ہر شخص کو صاف پانی، صفائی ستھرائی اور حفظان صحت کے عالمی حق کا احساس دلانے میں مدد کرنا ہوگی۔
یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔