امریکہ کو جوہری ہتھیاروں سے لیس ریاست پاکستان کی جانب سے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل پروگرام سے لاحق پھیلاؤ کے خطرے پر تشویش ہے۔
واشنگٹن میں کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس میں نیشنل سیکیورٹی کے ڈپٹی ایڈوائزر جون فائنر نے حالیہ بیان میں کہا کہ اگر پاکستان جدید ترین میزائل ٹیکنالوجی کی تیاری میں اضافہ کرتا ہے اور’’امریکہ سمیت جنوبی ایشیا کے اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے تو اس سے پاکستان کےعزائم پر حقیقی سوالات اٹھتے ہیں۔
امریکہ کی قومی سلامتی کے نائب مشیر جون فائنر نے کہا کہ امریکہ نے اسلام آباد کے ساتھ اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ لیکن ’’بدقسمتی سے ہم محسوس کر سکتے ہیں کہ پاکستان ان خدشات کو سنجیدگی سے لینے میں ناکام رہا ہے۔‘‘
فائینر نے توجہ دلائی کہ نتیجے کے طور پر بائیڈن انتظامیہ نے پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل سسٹم کی مزید ترقی کا مقابلہ کرنے کے لئے کئی اقدامات کیے ہیں۔
جون فائنر کا کہنا ہے کہ ’’ گزشتہ سال کے دوران ہم نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے لیے مدد فراہم کرنے والے غیر پاکستانی اداروں کے خلاف تین ادوار میں پابندیاں عائد کی ہیں۔ کل (18 دسمبر) ہم نے پاکستان کے سرکاری نیشنل ڈویلپمنٹ کمپلیکس کے خلاف براہ راست پابندیاں لاگو کیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ہم نے میزائل ڈیولپمنٹ سے منسلک کسی پاکستانی سرکاری ادارے پر پابندی لگائی ہے۔
نیشنل ڈویلپمنٹ کمپلیکس یا این ڈی سی پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل پروگرام کی نگرانی کرتا ہے۔ امریکہ نےاس کے علاوہ کراچی میں واقع ایسے تین دیگر اداروں پر بھی پابندیاں عائد کی ہیں جنہوں نے این ڈی سی کے لیے کام کیا ہے یا این ڈی سی کے لیے میزائل سے متعلق اشیا کی خریداری میں سہولت فراہم کی ہے۔ ان میں اختر اینڈ سنز پرائیویٹ لمیٹڈ، ایفیلی ایٹس انٹرنیشنل، اور راک سائیڈ انٹرپرائز شامل ہیں۔
قومی سلامتی کے نائب مشیر فائنر نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ ترقی، انسداد دہشت گردی اور دیگر سلامتی کے امور میں طویل عرصے سے پاکستان کا شراکت دار رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہم نے مشکل وقت میں اسلام آباد کو مدد فراہم کی ہے اور ہم مشترکہ مفاد کے ان شعبوں میں تعاون پر مبنی تعلقات کے خواہاں ہیں۔‘‘
محکمہ خارجہ کے پرنسپل نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے ایک حالیہ پریس بریفنگ میں کہا کہ ’’امریکہ عالمی سطح پر عدم پھیلاؤ کے نظام کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے اور پاکستان اس میں ایک اہم شراکت دار ہے۔‘‘
ان کا کہنا ہے: ’’ تاہم پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام کے بارے میں ہمارے خدشات واضح اور مستقل بنیادوں پر ہیں۔‘‘
ترجمان پٹیل نے اعلان کیا کہ ’’محکمہ خارجہ اپنی قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے پابندیوں اور دیگر ذرائع کا استعمال جاری رکھے گا اور اس بات کو یقینی بنائے گا کہ امریکی برآمد کنندگان اور امریکی مالیاتی نظام کو ہتھیار پھیلانے والوں کے ذریعے غلط طور پر استعمال نہ کیا جا سکے اور ہماری امید ہے کہ ہم ان مسائل پر پاکستانی حکومت کے ساتھ تعمیری انداز میں بات چیت جاری رکھیں گے۔
یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی عکاسی کرتا ہے۔