امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے حال ہی میں شام کے آمر بشار الاسد کی معزولی کے بعد جن ممالک کا دورہ کیا تھا ترکیہ بھی ان میں شامل ہے۔
انقرہ میں انہوں نے ایک اہم امریکی تشویش کا اظہار کیا اور وہ یہ کہ شام میں عدم استحکام آئی ایس آئی ایس یا داعش کے دوبارہ ابھرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
بلنکن نے کہا کہ ’’ہمارے ممالک نے آئی ایس آئی ایس کی علاقائی خلافت کے خاتمے کو یقینی بنانے کے لیے کئی برس بہت محنت کی۔ اب اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ یہ خطرہ دوبارہ سر نہ اٹھا پائے یہ ضروری ہے کہ ہم ان کوششوں کو جاری رکھیں۔
ترکیہ کا نظریہ اس طرح کی کوششوں کو پیچیدہ بنا دیتا ہے کیوں کہ ترکیہ کرد شامی دفاعی افواج ایس ڈی ایف کو دہشت گرد قرار دیتا ہے جوآئی ایس آئی ایس کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ایک اہم ساتھی ہے۔
ایس ڈی ایف کا ایک بڑا حصہ پیپلز پروٹیکشن یونٹس یا وائی پی جی کے جنگجوؤں پر مشتمل ہےجسے ترکیہ کردستان ورکرز پارٹی پی کے کے کے ایک حصے کے طور پر دیکھتا ہے۔ پی کے کے کو ترکیہ اور امریکہ دونوں نے دہشت گرد گروپ کے طور پر نامزد کیا ہے تاہم امریکہ دونوں کے درمیان واضح فرق رکھتا ہے۔
دسمبر کے اوائل میں جیسے ہی اسد حکومت کا خاتمہ ہوا، ترکیہ کی حمایت یافتہ فورسز نے شمالی شام میں ایس ڈی ایف کے ٹھکانوں پر حملہ کر دیا۔ امریکی ثالثی کے ذریعے17 دسمبر کو منبج کے علاقے میں جنگ بندی کو عارضی طور پر چند دنوں کے لیے بڑھا دیا گیا۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ امریکہ ترکیہ کے پی کے کے سے اپنے دفاع کے حق کو جائز سمجھتا ہے۔ لیکن انہوں نے ایس ڈی ایف کو آئی ایس آئی ایس کے خلاف جنگ میں ایک اہم حلیف قرار دیا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’’جب ہم ایس ڈی ایف کے اس اہم کام کو دیکھتے ہیں جو آئی ایس آئی ایس کے خلاف جنگ میں کارروائی کرنے اور ان جیلوں کو محفوظ بنانے کے لیے کرتا ہے جہاں آئی ایس آئی ایس کے جنگجو قید ہیں۔ اس تناظر میں ہم انہیں کسی بھی طرح سے اس اہم ذمہ داری سے الگ کرتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے۔
ایس ڈی ایف فورسز نےآئی ایس آئی ایس کے تقریباً 10 ہزار ارکان کو قیدی بنایا جسے امریکی سینٹ کام کے کمانڈر جنرل مائیکل کوریلا نے آئی ایس آئی ایس کی فوج کو حراست میں قرار دیا۔
ترجمان ملر نے اس بات پر زور دیا کہ ’’یہ استحکام کو بہتر بنانے کا وقت ہے نہ کہ فرقہ وارانہ لڑائی میں تبدیل ہونے کا۔
ترجمان میتھیو ملر کا کہنا ہے کہ ’’ایس ڈی ایف آئی ایس آئی ایس کے مقابلے کے لیے تشکیل کردہ اتحاد کے لیے ناقابلِ یقین حد تک اہم کام کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا اتحاد ہے جس کا ترکیہ بھی ایک رکن ہے۔ یہ امریکہ کے مفاد میں ہے، یہ ترکیہ کے اور شامی عوام کے مفاد میں ہے اور خطے کے تمام ممالک کے مفاد میں بھی ہے کہ داعش دوبارہ سر نہ اٹھائے اور داعش کے ان جنگجوؤں کو کبھی رہا نہیں کیا جائے گا جو ایس ڈی ایف کی قید میں ہیں۔
ترجمان ملر نے اعلان کیا کہ ’’ہم ایسے اقدامات نہیں دیکھنا چاہتے جس سے صورتحال مزید غیر مستحکم ہو اور شامی عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو۔
یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی عکاسی کرتا ہے۔