کیوبا کی حکومت کا جبر ختم کرنے کی کوششیں

کیوبا کے دارالحکومت ہوانا میں ہونے والے ایک حکومت مخالف احتجاج کا منظر (فائل فوٹو)

گزشتہ پانچ عشروں سے کیوبا کی جانب امریکہ کی پالیسیوں میں کیوبا کے عوام کی زندگیوں کے ہر پہلو پر وہاں کی حکومت کی ہول ناک پابندیوں کا عنصر شامل رہا ہے۔

مغربی کرۂ ارض کے امور کے لیے قائم قام معاون وزیرِ خارجہ سفیر مائیکل کوزاک نے کیوبا میں انسانی حقوق سے متعلق حالیہ خصوصی بریفنگ میں کہا کہ ہر امریکی انتظامیہ کو ایک ہی قسم کے مسئلے کا سامنا رہا ہے اور وہ اسے حل کرنے کے طریقوں پر غور کرتی رہی ہے۔ برسوں سے امریکہ، کیوبا پر اس کوشش میں اقتصادی تعزیرات نافذ کرتا رہا ہے کہ اس کی حکومت کو اس بات پر مجبور کیا جاسکے کہ وہ انسانی حقوق، سول سوسائٹی اور ہمہ گیریت کے حوالے سے اپنے طرزِ عمل میں نرمی پیدا کرے۔

سفیر کوزاک نے کہا کہ یہ طریقۂ کار محض جزوی طور پر کامیاب رہا، اس لیے کہ کیوبا کی معیشت طفیلی نوعیت کی رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس کا انحصار کسی اور پر رہا ہے۔ ابتدا میں وہ ایسے ہول ناک اور جابرانہ اقدامات نافذ کرنے میں کامیاب رہے جس نے ملک سے بیشتر کاروباریوں کو بھگا دیا اور جس کے نتیجے میں طلبہ تنظیمیں، اخبارات اور ہر شکل میں سول سوسائٹی ختم ہوگئی۔

ان کے بقول گرچہ کیوبا کی معیشت تباہ ہوگئی لیکن وہ ایسا کرنے میں کامیاب رہے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ برس ہا برس تک انھیں سوویت یونین سے بھاری بیرونی امداد ملتی رہی۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ بات سچ ہے، اس لیے کہ 1991 کے آخر میں جب سوویت یونین کا شیرازہ بکھرا تو کیوبا کو مجبوراً مراعات دینی پڑیں تاکہ اس کے عوام فاقوں کا شکار نہ ہوجائیں۔

قائم مقام معاون وزیرِ خارجہ کوزاک نے کہا کہ حکومت نے محدود پیمانے پر معیشت میں نرمی کی پالیسی اختیار کی۔ ملک کو اس سے فائدہ پہنچنا شروع ہوا یعنی اس قسم کی آزادانہ سرگرمیوں سے اور کیوبا کے معاشرے سے حقیقی تبدیلی دیکھنے میں آئی۔

انیس سو اٹھانوے میں ہوگو شاویز وینزویلا میں اقتدار میں آئے اور انھوں نے کیوبا کو رعایتیں دینا شروع کیں۔ قائم مقام معاون وزیر خارجہ کوزاک نے کہا کہ اس کے بدلے میں کیوبا کی حکومت نے شاویز حکومت کو اقتدار میں براجمان رہنے کے لیے مدد کی پیشکش کی اور پھر کیوبا نے فوری طور پر نرمی پر مبنی ان تمام اقدامات کو الٹا کردیا اور اپنی زیادہ جابرانہ شکل کی جانب واپسی اختیار کرلی ۔

اسی طرح کی اور دوسری نوعیت کی وجوہات کی بنا پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اس بات پر توجہ دی ہے کہ کاسترو کی حکومت کو ان وسائل سے محروم کردیا جائے جو وہ کیوبا میں اپنے جبرو استبداد اور وینزویلا میں اپنی مذموم مداخلت کے اخراجات کے لیے استعمال کرتی ہے۔ اور کوزاک کے بقول ہم نے یہ کام کیوبا کی فوج اور سیکیورٹی اور انٹیلی جنس کے اداروں کے خلاف باضابطہ تعزیرات کے ذریعہ کیا ہے۔

قائم مقام معاون وزیرِ خارجہ کوزاک نے کہا کہ ہمارا مقصد کیوبا کی سول سوسائٹی اور نجی شعبے کو مضبوط کرنا ہے لیکن کیوبا کی جابر حکومت کو نہیں۔ کیوبا سے رابطے کے لیے، کیوبا کے عوام کے انسانی حقوق کا احترام امریکہ کے لیے بدستور لازمی نکتہ ہونا چاہیے۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**