بحیرہ احمر میں جہاز رانی پر حوثیوں کے حملوں کا مقابلہ

فائل فوٹو

اسرائیلی شہریوں پر حماس کے دہشت گردوں کے خوفناک حملے کے ایک ماہ سے بھی کم عرصے کے بعد سے یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی عسکریت پسندوں نے دسمبر کے اوائل سے اپنی کارروائیوں کا آغاز کیا اور آبنائے باب المندب اور آبنائے ہرمز سے گزرنے والے تجارتی جہازوں کو تقریباً روزانہ ڈرون اور میزائل حملے کا ہدف بنانا شروع کر دیا۔

امریکی محکمہ دفاع کے مطابق حوثیوں نے تجارتی جہازوں کو نشانہ بناتے ہوئے سو سے زیادہ ڈرون اور بیلسٹک میزائل حملے کیے ہیں۔ ان جہازوں کا تعلق 35 سے زیادہ مختلف ممالک سے تھا۔

آبنائے باب المندب بحیرہ احمر کو خلیج عدن سے ملاتی ہے جب کہ آبنائے ہرمز خلیج عدن اور بحیرہ عرب کے درمیان ایک بحری گزرگاہ ہے۔ یہ سمندری آمدورفت کا ایک اہم راستہ ہے۔

امریکہ کے وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا کہ ’’یمن کے حوثیوں کے بے قابوحملوں میں حالیہ اضافہ تجارت کی آزادانہ آمدورفت کے لیے خطرہ ہے، بے گناہ بحر مسافروں کو خطرے میں ڈالتا ہے اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے۔

وزیرِ دفاع آسٹن کا کہنا ہے کہ ’’یہ حملے بے قابو، خطرناک اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اس خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک بین الاقوامی اتحاد بنانے کی کارروائی کر رہے ہیں۔

یہ صرف امریکی مسئلہ نہیں ہے، یہ ایک
بین الاقوامی مسئلہ ہے اور اس لیے اس پ رردِعمل بھی بین الاقوامی ہونا چاہیے۔

امریکی وزیرِ خارجہ آسٹن نے18 دسمبر کو آپریشن پراسپیرٹی گارڈین کے قیام کا اعلان کیا جو کمبائنڈ میری ٹائم فورسز کی نگرانی اور اس کی ٹاسک فورس 153 کی قیادت میں ایک نیا کثیر القومی سلامتی کے لیے اہم اقدام ہے جو بحیرہ احمر میں سیکیورٹی پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔

وزیرِ خارجہ آسٹن نے 19 دسمبر کو یورپی یونین اور نیٹو کے نمائندوں اور 43 ممالک کے اعلیٰ دفاعی رہنماؤں کے ساتھ ایک ورچوئل میٹنگ کے دوران ان حملوں کی مذمت کی جن کا ہدف بین الاقوامی جہاز رانی اور عالمی تجارت ہے۔ انہوں نے مزید ممالک پر زور دیا کہ وہ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے میری ٹائم کوششوں میں شامل ہوں۔

وزیرِ خارجہ آسٹن نے کہا کہ ’’آپریشن پراسپیریٹی گارڈین جنوبی بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں سلامتی کے چیلنجوں سے مل کر نمٹنے کے لیے متعدد ممالک کو اکٹھا کر رہا ہے جس کا مقصد تمام ممالک کے لیے جہاز رانی کی آزادی کو یقینی بنانا اور علاقائی سلامتی اور خوشحالی کو فروغ دینا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’’بحیرہ احمر ایک اہم آبی گزرگاہ ہے جو نیوی گیشن کی آزادی کے لیے ضروری ہے اور یہ ایک بڑی تجارتی راہداری ہے جو بین الاقوامی تجارت کے لیے سہولت فراہم کرتی ہے۔

وہ ممالک جو نیوی گیشن کی آزادی کے بنیادی اصول کو قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں ان غیر ریاستی عناصر کی طرف سے درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اکٹھا ہونا چاہیے جو بین الاقوامی پانیوں میں متعدد ممالک کے تجارتی جہازوں پر بیلسٹک میزائلوں اور بغیر عملے کے فضائی آلات کی مدد سے حملے کرتے ہیں۔

یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔