Accessibility links

Breaking News

کیا دنیا کو افغانستان کے طالبان کے ساتھ رابطہ رکھنا چاہیے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سفیررابرٹ ووڈ نے کہا ہے کہ ’’افغان خواتین اقوامِ متحدہ پر زور دیتی ہیں کہ وہ معاشرے کے تمام شعبوں میں خواتین کو شامل کرنے کے لئے طالبان پر دباؤ ڈالے۔

اقوامِ متحدہ کی افغانستان کے بارے میں آزادانہ تخمینہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ایک مثالی بات تو یہ ہوگی کہ افغانستان کو تشدد کے مزید کسی چکر سے گزرے بغیر بین الاقوامی قانون کے مطابق عالمی نظام کے اندر مکمل طور پر دوبارہ مربوط کیا جائے۔

افغانستان کے لیے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی خصوصی نمائندہ اور افغانستان میں اقوامِ متحدہ کے امدادی مشن کی سربراہ روزا اوتن بائیفا نے کہا کہ یہ ایک ایسا مقصد ہے جس کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم اس وقت متعدد مسائل کا سامنا بھی ہے۔

وہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے اس وقت خطاب کر رہی تھیں جب نمائندوں نے طالبان کے ساتھ رابطہ کاری کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں تبادلۂ خیال کیا۔ روزا اوتن بائیف نے طالبان کے ساتھ نتیجہ خیز رابطہ کاری کا ذکر کیا جس میں انسانی حقوق اور گورننس سمیت متعدد موضوعات پر بات ہوئی۔

دوسری طرف طالبان کی اقتدار میں واپسی کے نتیجے میں ملک بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ایک خطرناک انداز سامنے آیا ہے۔

تو سوال یہ ہے کہ کیا طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنا سود مند ہے؟

امریکہ کے خصوصی سیاسی امورکے لیے متبادل نمائندے رابرٹ ووڈ نے تین ایسے اہم موضوعات کی جانب توجہ دلائی جنہیں حل کرنے کی ضرورت ہے۔

سب سے پہلے تو یہ کہ’’ افغان خواتین اقوامِ متحدہ پر زور دیتی ہیں کہ وہ معاشرے کے تمام شعبوں میں خواتین کو شامل کرنے کے لیے طالبان پر دباؤ ڈالے ۔

سفیر ووڈ نے کہا کہ ’’امریکہ ان کی درخواستوں کو سنتا ہے اور اس وقت تک طالبان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کسی اہم قدم پر غور نہیں کرے گا جب تک کہ خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم، افرادی قوت اور سماجی اور سیاسی زندگی کے دیگر پہلوؤں تک بامعنی رسائی حاصل نہیں ہو جاتی۔

سفیر ووڈ نے کہا کہ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ’’طالبان خواتین کے عملے پر پابندیوں کے ذریعے فلاحی سرگرمیوں تک رسائی میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔ امریکہ انتہائی ضرورت مندوں کو مدد فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ 2021 سے ہم نے 2 بلین ڈالر سے زیادہ کی امداد فراہم کی ہے۔

تاہم یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ صرف انسانی امداد ہی کافی نہیں ہے۔ اس لیے طالبان کو اپنی پالیسیوں کو تبدیل کرنا چاہیے جو خواتین کو افغانستان کی معیشت میں کر دار ادا کرنے سے روکتی ہیں۔

اور آخر میں یہ بات غور طلب ہے کہ امریکہ افغانستان کے بارے میں اقوامِ متحدہ کے آزادانہ جائزے کا خیر مقدم کرتا ہے جس میں بین الاقوامی رابطہ گروپ کے قیام کے لیے خصوصی ایلچی کی تقرری کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ گروپ ’’ایک ایسے لائحہ عمل کو فروغ دینے کے لیے اہم ہوں گے جو اس بات کو یقینی بنائے کہ افغانستان اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کرے۔

سفیر رابرٹ ووڈ نے کہا کہ سلامتی کونسل کو طالبان پر یہ دباؤ ڈالنے کے لیے مل کر کام کرنا جاری رکھنا چاہیے کہ وہ اپنا منفی انداز تبدیل کریں۔ سفیر کا مزید کہنا یہ ہے کہ ’’طالبان کو افغان عوام کے ساتھ سنجیدہ بات چیت میں شامل ہونا چاہیے جس میں عوام کی امنگوں کی حمایت کرنے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ختم کرنے اور ضرورت مندوں تک امداد کی فراہمی کی اجازت دینے جیسے موضوعات شامل ہوں۔

یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔

XS
SM
MD
LG