برما کی ایک فوجی عدالت نے جیل میں بند جمہوریت نواز رہنما آنگ سان سوچی کو بدعنوانی کے مزید چارالزامات پرسزا سنانے کے بعد مزید چھ سال قید کی سزا سنائی ہے۔ انہیں دراصل فروری 2021 میں ایک فوجی بغاوت کے بعد ہی گرفتارکرلیا گیا تھا، جب ان کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی پارٹی نے بھاری اکثریت سے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔
نوبیل انعام یافتہ لیڈرکے خلاف تازہ ترین فیصلے کے بعدان کی مجموعی قید کی مدت 17 سال ہو گئی ہے۔ ابھی مزید نوالزامات پر مقدمے چل رہے ہیں جن کی زیادہ سے زیادہ ممکنہ سزا 122 سال ہے۔
غیر سرکاری تنظیم اسسٹنس ایسوسی ایشن فار پولیٹیکل پریزنرز کے مطابق آنگ سان سوچی ان 15,000 سے زیادہ لوگوں میں سے ایک ہیں جنہیں برما میں فوجی حکمرانی کی مخالفت کرنے پر گرفتارکیا گیا ہے اور ان میں سے 12,000 ابھی تک زیر حراست ہیں، قید کیے گئے بہت سے لوگوں پر فوجی عدالتوں نے بند سماعتوں کے ، جہاں ملزمان کا دفاع کرنے والے وکلاء اورعوام کورسائی نہیں دی گئی، بعد تشدد کیا اورسزائیں دی ہیں۔
سیاسی قیدیوں کے گروپ کے مطابق، سزا یافتہ قیدیوں کو اکثر دور دراز کی جیلوں میں منتقل کیا جاتا ہے جس سے ان کے اور ان کے اہلِ خانہ کے لیے اضافی مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔
جولائی میں جمہوریت کے حامی چارکارکنوں کو پھانسی دینے کے بعد، جن میں مصنف اور جمہوریت کے حامی کارکن یو چیا من یو (جنہیں کوجمی بھی کہا جاتا ہے) اورسابق ہپ ہاپ آرٹسٹ اور ممبر پارلیمنٹ یو پیو زیا تھاو شامل ہیں، برمی حکومت نے دھمکی دی کہ مزید پھانسیاں دی جاسکتی ہیں. بغاوت کے بعد سے اب تک 70 سے زائد سیاسی قیدیوں کو موت کی سزا سنائی جا چکی ہے۔
جرنلسٹس انفارمیشن گروپ کے مطابق حکومت کی طرف سے پریس کے ارکان کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔
ان کے علاوہ، جاپانی دستاویزی فلم ساز ٹورو کوبوٹا کو عوامی بدامنی بھڑکانے اورامیگریشن قوانین کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا اور انہیں سات سال کا سامنا کرنا پڑا۔
برما کی فوجی حکومت کی جانب سے آنگ سان سوچی کی غیرمنصفانہ گرفتاری اور سزا، انصاف اورقانون کی حکمرانی کی توہین ہے۔ امریکہ برما کی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ آنگ سان سوچی اورمنتخب جمہوری عہدیداروں اورغیرملکیوں سمیت غیرمنصفانہ طورپرحراست میں لیے گئے تمام افراد کو فوری رہا کرے۔
امریکہ فوجی حکومت پرتشدد بند کرنے، انسانی بنیادوں پربلا روک ٹوک رسائی کی اجازت دینے اوربرما کی جمہوریت کے راستے کو بحال کرنے پر زور دیتا ہے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**