یہود دُشمنی کی لعنت کا مقابلہ کرنا

فائل فوٹو

دنیا ’’اب یہود دشمنی میں انتہائی اضافے کا مشاہدہ کر رہی ہے جو ہم کئی دہائیوں سے دنیا بھر میں دیکھ رہے ہیں۔ یہ کہنا ہے یہود مخالفت کی نگرانی اور اس سے نمٹنے کے شعبے کی خصوصی امریکی ایلچی ڈیبورا لپسٹاڈ کا جو ایک حالیہ بریفنگ میں یہ بیان دے رہی تھیں۔

حماس کی طرف سے اسرائیل کے خلاف سات اکتوبر کا دہشت گردانہ حملہ ’’ہولوکاسٹ کے بعد سے یہودیوں کے لیے مہلک ترین دن تھا ۔

سفیر لپسٹاڈ نے کہا کہ اس نے ’’نہ صرف حماس کی حمایت بلکہ یہود دشمن بیانات اور واقعات کی ایک لہر کو جنم دیا۔

سفیر لپسٹاڈ کہتی ہیں کہ ’’ یونان، ڈنمارک، کینیڈا اور امریکہ میں ہولوکاسٹ کی یادگاروں کو مسخ کر دیا گیا۔ عبادت گاہوں پر مولوٹوف کاک ٹیل پھینکے گئے۔

ان میں برلن اور مونٹریال کی عبادت گاہیں بھی شامل ہیں۔ فرانس اور جرمنی میں یہودیوں کی رہائش گاہوں پر یہودی ستاروں کو چھپا دیا گیا، یہودیوں کو ہراساں کیا گیا اور یہ احتجاجی نعرے لگائے گئے کہ "یہودیوں کو گیس سے مار دو۔ ردی کی ٹوکری میں یہودی ستارے کے پوسٹردیکھے گئے۔ معاشرے کو صاف کرو، آزاد معاشرہ تشکیل کرو۔"

امریکہ پرامن احتجاج کا خیر مقدم کرتا ہے، چاہے مظاہرین ایسے خیالات کا اظہار کر رہے ہوں جو امریکی پالیسی کے خلاف ہیں۔

سفیر لپسٹاڈ نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’’ تاہم جب آپ لوگوں کو نعرے لگاتے ہوئے یہ سنتے ہیں کہ یہودیوں کو مار ڈالو یا پرتشدد انتفادہ کا مطالبہ کیا جائے تو یہ فلسطینی عوام کے حقوق کی حمایت نہیں ہے۔

یہ خالصتاً اور واضح یہود دشمنی ہے اور اسی طرح جب آپ اکتوبر سات کو کی جانے والی دہشت گردی کی حمایت کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس قسم کی ذہنیت محض مزید نفرت، مزید ہلاکت اور زیادہ تشدد کو ہوا دیتی ہے۔

سفیر لپسٹاڈ نے مزید واضح کیا کہ اسرائیلی پالیسی پر تنقید یہوددشمنی نہیں ہے۔ لیکن سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ جب آپ یہودی برادریوں کو نفرت اور دھمکی دیتے ہوئے نشانہ بناتے ہیں تو یہ مشرق وسطیٰ کے تنازع پر لیا جانے والا مؤقف نہیں بلکہ یہود دشمنی ہے۔

امریکہ یہود دشمنی کی بڑھتی ہوئی لہر کا مقابلہ کرنے کے لیے یورپی کمیشن کے رابطہ کاروں اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے تاکہ اس سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر حکمتِ عملی تیار کی جا سکے۔ سفیر لپسٹاڈ نے اپنے تمام یورپی دوروں میں اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکہ یہود دشمنی
کے اس طوفان کو صرف یہودیوں کے لیے خطرہ نہیں سمجھتا ہے بلکہ ہم اسے ایک بڑے عامل کے طور پر دیکھتے ہیں جس کے جمہوری اقدار، جمہوری حکومتوں، انسانیت، قومی استحکام، حتیٰ کہ قومی سلامتی پر بھی گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس لیے کسی قسم کا تعصب قابلِ قبول نہیں ہے اور نہ ہی اسے برداشت کیا جانا چاہیے۔

یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔