سن 2013 کے آغاز سے چین نے جنوبی بحیرۂ چین میں بیشتر غیر آباد جزائر، کم گہرے اور دلدلی علاقوں اور زیرِ آب حصوں پر اپنی ملکیت کی مہر لگانے کے لیے اپنی کوششوں کو تیز کر رکھا ہے۔
بیجنگ نے زمین کو قابلِ استعمال بنانے اور متنازع علاقوں کو فوجی مقاصد کے لیے قبضے میں لینے کا جو طریقہ اپنا رکھا ہے وہ ماحول کے لیے تباہ کن ہے۔ اگست کے آخر میں امریکہ کے محکمۂ خارجہ کے ایک اعلٰی عہدیدار نے ٹیلی فون کے ذریعے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اس کی وجہ سے مونگے کی چٹانوں کے سلسلے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔
چین نے ان مصنوعی پلیٹ فارمز کو اپنی بحری ملیشیا اور قانون نافذ کرنے والے سویلین جہازوں کی رسائی کو وسعت دینے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس کام میں اسے چینی فوج کی مدد بھی حاصل رہی ہے۔ اس کا مقصد جنوبی بحیرۂ چین کے بیشتر پانیوں کے دعوے دار جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کو ڈرانا دھمکانا اور انہیں تنگ کرنا ہے۔
حالاں کہ اقوامِ متحدہ کے تعاون سے 2016 میں بننے والے ثالثی ٹربیونل نے فیصلہ دیا تھا کہ چین کے جنوبی بحیرۂ چین سے متعلق دعووں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
محکمۂ خارجہ کے عہدے دار کے بقول امریکہ اس فیصلے سے اپنی گہری وابستگی کا اظہار کرتا ہے۔ جس ڈھٹائی کے ساتھ چین دوسرے دعوے داروں کو ان علاقوں سے دُور رکھنے کے لیے حربے استعمال کر رہا ہے، اس پر ہمیں تشویش ہے۔
ایک بات صاف ہے کہ بیجنگ کے سرکاری اداروں نے ان مقامات کی تعمیر اور یہاں فوجی تنصیبات کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اسی وجہ سے امریکی محکمۂ خارجہ ان چینی شہریوں پر ویزے کی پابندیاں عائد کر رہا ہے جو بحیرۂ جنوبی چین میں بیجنگ کی جانب سے عدم استحکام پیدا کرنے کی کوششوں میں پوری طرح ملوث ہیں۔
اسی دوران امریکہ کے محکمۂ تجارت نے بیجنگ کے 24 سرکاری اداروں کو بحیرۂ جنوبی چین میں جاری سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی بنا پر اپنی خاص فہرست میں شامل کرلیا ہے جس کے بعد اس فہرست میں شامل کمپنیوں سے لین دین کے لیے ایک خاص لائسنس کی ضرورت ہو گی۔
محکمۂ خارجہ کے عہدے دار نے کہا کہ "بحیرۂ جنوبی چین سے متعلق چین کی کارروائیوں پر جس طرح ہمیں تشویش ہے، اسی طرح دوسرے ممالک کو بھی ان مذموم کارروائیوں پر تحفظات ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک بھی اس تناظر میں چین کے ساتھ اپنے تجارتی، تعلیمی اور ویزا سے متعلق پالیسیوں کا ازسر نو جائزہ لے رہے ہیں۔"
محکمۂ خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ "ہم چین کی بحیرۂ جنوبی چین میں فوجی سرگرمیوں کو کم کرنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں جس میں ہمیں خطے کے دیگر ممالک کی حمایت بھی حاصل ہے۔"
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**