بیلاروس میں نو اگست کو ہونے والے انتخابات میں آمر حکمران الیگزنڈر لوکاشینکو کی دھاندلی کے ذریعے فتح کے بعد پیدا ہونے والا سیاسی بحران تاحال جاری ہے۔
بیلاروس کی حزبِ اختلاف نے شفاف اور آزادانہ انتخابات کے انعقاد اور انتقالِ اقتدار جیسے معاملات پر حکومت کے ساتھ بات چیت کے لیے قومی رابطہ کونسل (این سی سی) تشکیل دی تھی۔ لیکن حزبِ اختلاف کے ساتھ نیک نیتی سے مذاکرات کے بجائے لوکاشینکو حکومت نے سیاسی بنیادوں پر این سی سی کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے اور اس کے ارکان کو گرفتاریوں، جبری ملک بدری اور اغوا جیسے مظالم کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
سات ستمبر کو قومی رابطہ کونسل کی رکن ماریہ کیلنسی کاوا کے دارالحکومت منسک سے اغوا اور آٹھ ستمبر کو این سی سی کے ترجمان اینٹن روڈنیکو اور ایگزیکٹو سیکریٹری ایوان کراوٹزو کی ملک بدری پر امریکہ کو سخت تشویش ہے۔ اس کے اگلے ہی روز قومی رابطہ کونسل کے ایک اور رکن میکسم زینک کو بھی گرفتار کرلیا گیا تھا۔
امریکہ محترمہ کیلنسی کاوا اور بیلاروس کے عوام کی اس جرأت کا معترف ہے جس کے ساتھ وہ پر امن طور پر اپنا یہ حق مانگ رہے ہیں کہ انہیں آزاد اور شفاف انتخابات کے ذریعے اپنے رہنما خود چننے کا اختیار دیا جائے۔ مظاہرین کو حکومتی اہلکاروں کے بہیمانہ تشدد اور جبر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جن میں دن دیہاڑے مار پٹائی، ہزاروں افراد کی گرفتاریاں اور اغوا کے بڑھتے ہوئے واقعات سرِ فہرست ہیں۔
یکم ستمبر سے بیلاروس کی جامعات کے طلبہ بھی نقاب پوش سیکیورٹی اہلکاروں کے پرتشدد کریک ڈاؤن کا سامنا کر رہے ہیں۔ بہت سے طلبہ کو کسی نشان کے بغیر والی گاڑیوں نے سڑکوں اور گلیوں سے اغوا کرلیا ہے۔
امریکہ اپنے اتحادیوں اور رفقا کے تعاون سے بیلاروس میں جبر اور انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث عناصر کا احتساب یقینی بنانے کے لیے ان کے خلاف مزید پابندیوں کے نفاذ پر غور کر رہا ہے۔ امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومیو نےایک بیان میں بیلاروس کے حکام کو یاد دلایا ہے کہ وہ محترمہ کیلنسی کاوا اور غیر منصفانہ طور پر حراست میں لیے گئے دیگر افراد کا تحفظ یقینی بنانے کی اپنی ذمہ داری پوری کریں۔
امریکی وزیرِ خارجہ کے بقول امریکہ بیلاروس کے حکام سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے ہی عوام کے خلاف تشدد کا سلسلہ ختم کریں، امریکی شہری وٹالی شکی لاروف سمیت حراست میں لیے گئے تمام بے گناہ افراد کو رہا کریں اور بیلاروسی معاشرے کے حقیقی نمائندوں کے ساتھ با معنی مذاکرات کریں۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**