برما میں بڑھتے بحران پر عالمی تشویش

فائل فوٹو

اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے تقریباً 40 رکن ممالک نے 15 جولائی کو ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں برما میں بگڑتی ہوئی انسانی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ برما کو میانمار بھی کہا جاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے خصوصی سیاسی امورکے لیے متبادل نمائندے رابرٹ ووڈ نے یہ بیان ایک پریس کانفرنس میں دیا۔

یکم فروری 2021 کوبرمی فوج نے بغاوت کے ذریعے ملک کی جمہوری طور پر منتخب سویلین حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ فوجی جنتا اس وقت سے اپنے ہی لوگوں کو دبانے کے لیے پرتشدد طریقے استعمال کر رہی ہے۔

انتہائی ظالمانہ سلوک نسلی اقلیتوں خاص طور پر روہنگیا لوگوں کے ساتھ روا رکھا گیا ہے جو برما کی راکھائن ریاست میں رہائش پذیر ہیں۔

سفیررابرٹ ووڈ کہتے ہیں کہ ’’ہمیں تشدد اور تنازعات میں اضافے اور میانمار میں بین الاقوامی انسانی قانون اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی خلاف ورزیوں کی مصدقہ اطلاعات پر گہری تشویش ہے۔ یہ صورتِ حال انسانی بحران کو گہرا کر رہی ہے۔

حالیہ رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ میانمار کی حکومت نے ریاست راکھائن میں اندرونی طور پر بے گھر افرادکو تنازعات کے دوران انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کے لیے جان بوجھ کر اقدامات کیے ہیں۔

ان میں اکثریت روہنگیا افراد کی ہے۔ ہمیں خاص طور پر ان رپورٹوں پر تشویش ہے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت نے آئی ڈی پی یعنی اندرونی طور پر بے گھر افراد کے کیمپوں کے ارد گرد بارودی سرنگیں بچھا دی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ان کیمپوں کو فوجی اڈوں کے طور پر استعمال کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔

خصوصاً میانمار کی مسلح افواج اور دیگر جماعتوں کے ذریعہ نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے بچوں سمیت افراد کی جبری بھرتی کی بھی مصدقہ اطلاعات ہیں جس کے نتیجے میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو مزید ہوا دینے اور انسانی صورتِ حال کے مزید بگڑنے کا خطرہ ہے۔

سفیر رابرٹ ووڈ کہتے ہیں کہ ’’یہ پیش رفت خلاف ورزیوں اور بدسلوکی کی دیگر رپورٹوں کے ایک سلسلے کے بعد ہوئی ہے۔ ان میں خاص طور پر میانمار کی مسلح افواج کی طرف سے عام شہریوں اور شہری اثاثوں پر اندھا دھند فضائی بمباری، شہریوں کے گھروں کو آگ لگا دینا، انسانی ہمدردی کے کارکنوں اور تنصیبات پر حملے اور انسانی ہمدردی تک رسائی پر پابندیاں شامل ہیں۔ یہ طرزِ عمل ناقابلِ قبول ہے۔

سفیر رابرٹ ووڈ کا کہنا ہے کہ ’’فروری 2021 میں حکومت کی پرتشدد فوجی بغاوت اور میانمار کی آبادی پر حملے کے بعد سے بنیادی انسانی ضرورت کے مستحق لوگوں کی تعداد ایک ملین سے بڑھ کر 18.6 ملین ہو گئی ہے۔

انتیس لاکھ سے زیادہ بے گھر ہوئے ہیں جن میں 66 ہزار ایسے لوگ شامل ہیں جنہوں نے ہمسایہ ممالک میں تحفظ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ تعداد بغاوت سے پہلے ملک چھوڑ کر جانے والے 10 لاکھ سے زیادہ روہنگیا پناہ گزینوں کے علاوہ ہے۔

سفیر ووڈ نے کہا کہ ’’ہم میانمار کی مسلح افواج پر خاص طورسے اور میانمار کے تمام متعلقہ فریقوں سے تشدد کو کم کرنے، بین الاقوامی انسانی قانون اور انسانی حقوق کے قانون کا احترام کرنے اور شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔ ہم میانمار کی صورتِ حال کا پرامن حل تلاش کرنے کے لیے تعمیری اور جامع مذاکرات میں شامل ہونے کے مطالبات کا اعادہ کرتے ہیں۔

یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔