اسرائیل حماس تنازع کے تناظر میں امریکی یونیورسٹی کیمپس میں فلسطینیوں کی حمایت میں مظاہرے شروع ہونے کے بعد صدر جو بائیڈن نے ’’لوگوں کے پرامن اجتماع اور اپنی رائے کے لیے ‘‘آزادی اظہار کے حق کی بنیادی نوعیت پر زور دیا۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ ’’پرامن احتجاج اس بہترین روایت کی عکاسی کرتا ہے کہ امریکی نتیجہ خیز معاملات پر کیسے ردِعمل کا اظہار کرتے ہیں۔
تاہم انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہم ایک مہذب معاشرہ ہیں جہاں نظم ونسق کو غالب ہونا چاہیے۔ جب تشدد ہوتا ہے تووہ قانون کے خلاف ہے۔
امریکہ میں نیشنل انٹیلی جینس کے ڈائریکٹر ایورل ہینز نے اس ماہ کے شروع میں ایک اضافی بیان میں مظاہروں پر اثر انداز ہونےکے خطرے سے متعلق خبردار کیا تھا جیسے ایران کی اثر اندازی کی کوششیں جن میں ’’سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا استعمال کرتے ہوئے اختلاف پیدا کرنا اور جمہوری اداروں پر اعتماد کو کمزور کرنا اور دھمکیاں دینا شامل ہے۔
ڈائریکٹر ہینز نے لکھا کہ ’’ایرانی حکومت سے وابستہ افراد نے حالیہ ہفتوں میں غزہ جنگ کے حوالے سے جاری مظاہروں کے تناظر میں موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے اور ایک ایسے طریقۂ کار کا استعمال کیا ہے جسے ہم نے دوسرے عناصر کو برسوں سے استعمال کرتے دیکھا ہے۔
ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ ایران کی حکومت سے منسلک عناصر خود کو آن لائن ایکٹیوسٹ کے طور پر ظاہر کرتے ہوئے احتجاج کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہاں تک کہ مظاہرین کو مالی مددتک فراہم کرتے ہیں۔
ڈائریکٹر ہینز نے اس بات پر زور دیا کہ ’’مظاہروں میں شرکت کرنے والے امریکی نیک نیتی کے ساتھ، غزہ کے تنازعے پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔
یہ انٹیلی جینس اس بات کی نشاندہی کسی دوسری صورت میں نہیں کرتی ہے لیکن ان غیر ملکی عناصر کے بارے میں انتباہ کرنا بھی اہم ہے جو ہماری بحث کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی بریفنگ کے دوران پریس سیکریٹری کیرین ژان پیئر نے ایران اوراثر اندازی کے لیے کام کرنے والےکسی بھی دوسرے غیر ملکی عنصر کے لئے ایک ’’ٹھوس پیغام‘‘ دیا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’’ہماری سیاست میں مداخلت کرنا اور تقسیم کو ہوا دینے کی کوشش کرنا ناقابلِ قبول ہے اور ہم اپنی جمہوریت اور اپنے معاشرے کو کمزور کرنے کی کوششوں کو بے نقاب کرتے رہیں گے۔
امریکی حکومت پرامن طریقے سے احتجاج اور سیاسی خیالات کے اظہار کے لیے پہلی ترمیم کے تحت دیے گئے حقوق کے استعمال میں امریکیوں کی بھرپور حمایت اور دفاع جاری رکھے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے اور تنازع کو بڑھانے کی کوششوں کے خلاف خبردار کرتے اور بیرونی کوششوں کو بے نقاب کرتے رہیں گے۔‘‘
ژاں پئیر نے کہا کہ پہلی بات مضبوط اور فعال جمہوریت کا ایک لازمی حصہ ہے جبکہ آخری بات ایک خطرہ ہےجسے کبھی بھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔
یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔