ڈیجیٹل ترقی ہر جگہ کے لوگوں اور معاشروں کے لیے ایک بڑی نعمت ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ یہ ہمارے وقت کے سب سے بڑے سیکیورٹی چیلنجز میں سے بھی ایک ہے۔
اقوامِ متحدہ کے 60 سے زائد رکن ممالک اور یورپی یونین کے مشترکہ بیان کے مطابق ’’سائبر اسپیس کا بدنیتی پر مبنی استعمال آج کی باہم مربوط دنیا میں ایک اہم چیلنج ہے کیوں کہ ریاستیں مواصلات، تجارت اور حکمرانی کے لیے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہیں۔
اقوامِ متحدہ میں امریکہ کی مستقل نمائندہ لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ ’’سائبر سیکیورٹی ہماری معیشتوں اور جمہوری اداروں جیسے بنیادی نظاموں کو فعال کرنے کی صلاحیت دیتی ہے اور ابھی تک متعدد ریاستی اور غیر ریاستی عوامل نے مخالفانہ انداز اختیار کیا ہے۔
سفیر گرین فیلڈ کا کہنا ہے کہ ’’دنیا بھر میں انہوں نے منافع کے لیے متاثرین سے بھتہ وصول کرنے اور حکومتوں اور نجی اداروں سے رقم اور آئیڈیاز چرانے کے لیے ڈیجیٹل کنیکٹیویٹی کا استحصال کیا ہے۔ وہ صحافیوں اور انسانی حقوق کے محافظوں کو نشانہ بناتے ہیں، مستقبل میں تصادم کی پیشگی پوزیشن لیتے ہیں اور اقوامِ متحدہ سمیت ہمارے اہم بنیادی ڈھانچے کو دھمکیاں دیتے ہیں۔
سفیر تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ ’’سائبر اسپیس کے لیے اتفاق رائے سے اپنائے گئے ذمے دار ریاستی رویے کا لائحہ عمل واضح کرتا ہے کہ سائبر اسپیس میں بین الاقوامی قانون لاگو ہوتا ہے اور ریاستوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ امن کے دوران ریاستی رویے کے رضاکارانہ اصولوں کو برقرار رکھیں۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’’جنہوں نے اس فریم ورک کی توثیق کی ہے ان میں سے بعض غلط عوامل کو نظر انداز کرنے یا اس سے بھی بدتر یہ کہ انھیں بااختیار بنانے کا انتخاب کرتے ہیں۔
سفیر گرین فیلڈ کا کہنا ہے کہ ’’اس میں ڈیمو کریٹک ری پبلک آف کوریا (شمالی کوریا) کی بدنیتی پر مبنی سائبر کارروائیاں شامل ہیں جو اس کے بڑے پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں اور بیلسٹک میزائل پروگراموں کی فنڈنگ کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔
اس میں یوکرین، جرمنی، چیک ری پبلک، لتھوانیا، پولینڈ، سلوواکیہ اور سوئیڈن میں روس کی سائبر سرگرمیاں شامل ہیں جہاں دیگر سرگرمیوں کے علاوہ روس کے جنرل اسٹاف مین انٹیلی جینس ڈائریکٹوریٹ نے سیاسی جماعتوں اور جمہوری اداروں کو نشانہ بنایا۔ صرف یہی نہیں بلکہ روسی حکومت نے رینسم ویئر عوامل کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ کے طور پر کام کیا ہے- انہوں نے حالیہ برسوں میں اسپتالوں اور دیگر اہم انفراسٹرکچر کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے۔
سفیر تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ ’’ہم ہر ریاست سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فریم ورک کو نافذ کرنے اور سائبر سپیس میں امن اور استحکام کو فروغ دینے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔
سفیر کہتے ہیں کہ ’’چاہے اس بات پر سوچ بچار ہو کہ امن قائم کرنے کی کارروائیاں خطرات کو محدود کرنے کے لیے کیوں کہ سائبر حفظان صحت کو فروغ دے سکتی ہیں یا اس بات کو بہتر طور پر سمجھنا کہ سائبر سیکیورٹی کس طرح عدم پھیلاؤ کی کوششوں میں اضافہ کر سکتی ہے۔ اس کونسل کو سائبر سیکیورٹی کے تناظر میں لاحق چیلنجوں کا جائزہ جاری رکھنا چاہیے۔
سفیر تھامس گرین فیلڈ کہتی ہیں کہ ’’آئیے ہم ریاست کے رویے پر بین الاقوامی قانون کے لاگو ہونے کی بھرپور تصدیق کریں۔ آئیے امن کے وقت میں ذمہ دار ریاستی رویے کے رضاکارانہ اصولوں کی پابندی کو فروغ دیں اور سائبر واقعات سے پیدا ہونے والے تنازعات کے خطرے کو کم کرنے میں مدد کریں۔
آئیے ہم قوانین پر مبنی بین الاقوامی نظم کو برقرار رکھیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ڈیجیٹل دنیا حقیقی دنیا پر بہتر ی کے حوالے سے اثر انداز ہوتی ہے۔
یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔