Accessibility links

Breaking News

جنگ کا ایک خاص ظالمانہ ہتھیار


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پوری دنیا میں تنازعات سے متعلق جنسی تشدد کو جنگ اور دہشت گردی کے حربے کے طور پر بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے حالاں کہ بین الاقوامی سطح پر اس کی مذمت کی جاتی ہے۔ اقوامِ متحدہ میں امریکی نمائندہ لنڈا تھامس گرین فیلڈ کہتی ہیں کہ درحقیقت ’’اس کڑی اور تلخ حقیقت کی پشت پناہی کرنے کے لیے کافی ثبوت موجود ہیں۔ یہ جنسی تشدد کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

تھامس گرین فیلڈ کہتی ہیں کہ ’’خواتین کے جسموں کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اسے دہشت پھیلانے، عدم استحکام پیدا کرنے اورکمیونٹیز کے حوصلے توڑنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ لوگوں کو خاموش کرنے کے لیےاس کا استعمال کیا جاتا ہے اور انھیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے کہ وہ اکیلے ہیں اور ان کی زندگی جینے کے قابل نہیں ہے۔

سفیر تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ ہم بہادر زندہ بچ جانے والوں کے مقروض ہیں جو ان متاثرین کی جانب بڑھے جنھیں خوف اور شرمندگی نے خاموش کر دیا اور ان لوگوں کے لیے بھی جو اپنی داستان سنانے سے قبل ہی مارے گئے قبل اس کے کہ جنسی تشدد کی اس وبا کا مقابلہ کیا جا تا۔ اب بین الاقوامی برادری کے سامنے تین بنیادی کام ہیں۔ سب سے پہلے تو مجرموں کو جواب دہ ٹھہرانا ہے … اور مجھے فخر ہے کہ امریکہ نے اس مقصد کے لیے کارروائی کی ہے۔

سفیر گرین فیلڈ کہتی ہیں کہ ہم خصوصی طور پر نامزد عالمی دہشت گرد تنظیم آئی ایس آئی ایس کے رہنماؤں کی بات کر رہے ہیں جنہوں نے یزیدی خواتین اور لڑکیوں کے خلاف جنسی تشدد کیا ہے، ہم نے ہیٹی کے گینگ لیڈروں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نامزد کیا ہے جس میں جنسی تشدد بھی شامل ہے۔

ہم نے اقوامِ متحدہ کی ڈی آر سی پابندیوں کی کمیٹی میں بھی ایسے مجرموں کو نامزد کیا ہے۔ ایسی کارروائیاں دوسروں کو اس قسم کا تشدد کرنے سے روکتی ہیں۔ اس سے قانون کی حکمرانی کو تقویت ملتی ہے۔ اس سے مفاہمت کا امکان بڑھ جاتا ہے یا یوں کہیں کہ بہت سی وجوہات کی بنا پرایسا کرنا درست کام ہے۔

پھر ایک اور بات یہ ہے کہ زندہ بچ جانے والوں پر مرتکز نقطہ نظر کے ذریعے بچ جانے والوں کا دفاع کرنا اور انہیں بااختیار بنانا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ زندہ بچ جانے والوں کو سننا اور ان کی منفرد ضروریات کا جواب دینا ضروری ہے۔ پھر طبی نگہداشت، نفسیاتی سماجی مدد اور قانونی وسائل فراہم کرنا جو انھیں درکار ہیں

یہ کہنا ہے سفیر تھامس گرین فیلڈ کا۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’’بلآخر ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ صنفی بنیاد پر تشدد کا تعلق بنیادی طور پر صنفی عدم مساوات سے ہے۔ اگر ہم جنسی تشدد کے مسئلے سے نمٹنا چاہتے ہیں تو ہمیں بنیادی معاشرتی اصولوں اور عدم مساوات کے نظام کو سمجھنے کی ضرورت ہے جو کمزورریاستی اداروں یا ان کی غیر موجودگی کے نتیجے میں تشدد کا باعث بنتا ہے۔

سفیر تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ ’’طویل المدت بہترین دفاع ایک منصفانہ معاشرہ ہی ہے جہاں سب کے انسانی حقوق کا احترام کیا جائے، جہاں خواتین اور لڑکیوں کو تعلیمی مواقع تک رسائی حاصل ہو اور جہاں ہر شخص قانون کے تحت یکساں انصاف سے مستفید ہو سکے۔

سفیر تھامس نے مزید کہا کہ ’’لاکھوں خواتین کی داستانیں سنائی نہیں جا رہی ہیں۔ آئیے ہم ان کے لیے مجرموں کو جواب دہ ٹھہرائیں اور ہم اپنے کام میں زندہ بچ جانے والوں پر توجہ مرکوز کر سکیں۔

یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔

XS
SM
MD
LG