یمن میں خانہ جنگی کے آٹھ سال بعد اپریل 2022 میں اقوامِ متحدہ نے متحارب فریقوں کے درمیان جنگ بندی کرائی۔ یہ متحارب فریق ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغی اور سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی قیادت میں ایک اتحاد کی حمایت والی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ یمن کی حکومت تھے۔ جنگ بندی کے نتیجے میں تشدد کافی حد تک ختم ہو گیا اور تنازعہ کے حل کا راستہ ہموار ہوا۔
تاہم خانہ جنگی نے دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک کو جنم دیا جو جنگ بندی کے باوجود آج بھی جاری ہے۔ لیکن جیسے ہی حالات بہتر ہونے لگے حوثیوں کی کارروائیوں نے گزشتہ دو برسوں میں حاصل ہونے والی تمام کامیابیوں کے بارے میں شکوک پیدا کر دیے۔ ان کارروائیوں میں بحیرہ احمر سے گزرنے والے بحری جہازوں پر حملہ کرنے کا فیصلہ بھی شامل تھا۔
اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے متبادل نمائندے رابرٹ ووڈ نے کہا کہ ’’حوثی بحیرہ احمر کے ذریعے عالمی جہاز رانی پر پابندی لگانے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں دنیا بھر کے لوگوں کو سامان اور رسد کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
رابرٹ ووڈ کا کہنا ہے کہ ’’ایشیا اور یورپ کے درمیان یک طرفہ سفر کے لیے افریقہ کے ارد گرد جہازکا راستہ تبدیل کرنے سے سفر میں تقریباً 10 دن اور ایندھن کے اخراجات میں ایک ملین ڈالر کا اضافہ ہوتا ہے۔ حوثی یمن کے شہروں کا محاصرہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں اور شہری آبادیوں کو خوراک، پانی اور انسانی امداد کی منتقلی کو روک رہے ہیں۔
سفیر ووڈ نے کہا کہ ’’امریکہ خطے میں مزید تنازعات کا خواہاں نہیں ہے۔ تاہم ہم حوثیوں کی طرف سے جہازوں پر بلا جواز حملوں کے تناظر میں خاموش تماشائی نہیں رہ سکتے۔
رابرٹ ووڈ کا کہنا ہے کہ ’’امریکی بحری جہازوں پر حملوں کے جواب میں امریکہ نے اپنے دفاع کے موروثی حق کو استعمال کرتے ہوئے ضروری اور مناسب اقدامات کیے ہیں جن کے بارے میں 12 جنوری، 26 جنوری، اور چھ فروری کو کونسل کو بھیجے گئے خطوط میں بتایا گیا ہے۔
اپنے دفاع میں کیے گئے ان حملوں کا مقصد حوثیوں کی بحیرہ احمر، آبنائے باب المندب اور خلیج عدن میں جہازوں اور تجارتی جہاز رانی کے خلاف غیر محتاط حملے جاری رکھنے کی صلاحیت کو متاثر کرنا اور ضرب لگانا ہے۔
سفیر ووڈ نے کہا کہ ’’اس کے علاوہ امریکہ نے گزشتہ ماہ انصاراللہ کو خصوصی طور پر نامزد عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا اعلان کیا اور جس کا اطلاق 16 فروری سے ہو چکا ہے۔ انصاراللہ کو عام طور پر حوثیوں کے نام سے جانا جاتا ہے۔
سفیر رابرٹ ووڈ کہتے ہیں کہ ’’امریکہ حوثیوں کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کو محدود طور پر نشانہ بنانا چاہتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یمن کے لوگوں کے لئے کسی بھی انسانی نقصان کو کم کرنے کی کوشش کرتا ہے جو بہتر مستقبل کے مواقع کے مستحق ہیں۔
سفیر ووڈ نے کہا کہ ’’یہ ضروری ہے کہ کسی بھی انٹرا یمنی لائحہ عمل میں یمنی سول سوسائٹی اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ وسیع تر رابطہ کاری کی جائے۔ انصاف، احتساب اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور خلاف ورزیوں کے ازالے کے لیے ان کے مطالبات کو نہ صرف سنا جانا چاہیے بلکہ ان پر توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے۔
یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔