صدر جو بائیڈن نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کو ایسا مسئلہ قرار دیا ہے جس پر نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ اس سے ہٹ کر بھی بہت زیادہ توجہ دی جارہی ہے۔
امریکہ ایک ایسے معاہدے کے لیےانتھک کام جاری رکھے ہوئے ہے جس کے تحت نہ صرف وہ یرغمال رہا ہو جائیں جو غزہ میں حماس کی تحویل میں ہیں بلکہ جنگ میں اتنا وقفہ بھی ہو جائے جو فلسطینیوں کے مصائب کم کرنے کی غرض سے انسانی امداد پہنچانے کا موقع بھی فراہم کر سکے۔
امریکہ میں قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے کہا کہ ہم یرغمالوں کی رہائی کے سمجھوتے کے حصے کے طور پر جنگ میں ایک عارضی وقفے کے لیے کوشاں ہیں اور پھر اس کی بنیاد پراس مسئلے کا زیادہ پائیدار حل تلاش کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ ’’ہم اس بات کے خواہش مند ہیں کہ حماس کو آخر کار شکست ہو جائے، غزہ اور اسرائیل میں امن اور سلامتی ہو اور یہ کہ پھر ہم دو ریاستی مملکت کے لیے طویل مدتی حل پر کام کریں اور جس میں اسرائیل کی سیکیورٹی کی ضمانت دی گئی ہو۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ اسرائیل کے اس حق کو یقینی بنانے کے لیے کہ سات اکتوبر جیسے حملے دوبارہ نہ ہوں امریکہ کی حمایت بہت اہم ہے۔
ان کے الفاظ میں ’’ہم جانتے ہیں کہ حماس، اسرائیل کو نشانہ بنانے کا عمل جاری رکھنا چاہتی ہے۔ حماس اپنے مقاصد کے بارے میں بہت واضح ہے اور ان میں سات اکتوبر کے حملوں کے بعد کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
وہ دہشت گرد حملے جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ اسرائیل کی مکمل تباہی کا عزم رکھتے ہیں اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ اسرائیل اس کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
ترجمان ملر نے زور دے کر کہا کہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش میں واضح تناؤ ہے کہ اسرائیل اس انداز میں اس پہلے مقصد کو حاصل کر سکتا ہے کہ وہ اپنے اختیار کے تحت ہر ممکن کام کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائے کہ شہریوں کا نقصان کم سے کم ہو۔
اردن کے بادشاہ عبداللہ نے صدر بائیڈن سے اپنی تازہ ترین ملاقات کے بعد ان 27 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کی موت پر افسوس کا اظہار کیا جو اس جنگ میں مارے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’’غزہ میں ضائع ہونے والی ہر بے گناہ زندگی ایک سانحہ ہے۔
ترجمان ملر نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ امریکہ، اسرائیل کے ساتھ رابطہ رکھتا ہے اور شہریوں کے لیے نقصان کو کم سے کم کرنے کے لیے نظریے، مہارت اور طریقوں کی پیشکش کرتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’’ہم نے دیکھا ہے کہ شہریوں کی اموات کی تعداد پہلے کے مقابلے میں کم ہوئی ہے۔ تاہم یہ نقصان جس حد تک ہونا چاہیے اس سے اب بھی کہیں زیادہ ہیں اور اب بھی ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
ترجمان ملر نے کہا کہ’’یہ ہی وجہ ہے کہ ہم انسانی بنیاد پر وقفے کی کوشش میں رابطے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔