عالمی فوج داری انصاف کے لیے امریکی سفیربیتھ وین سکاک نے ایک حالیہ پریس بریفنگ میں کہا کہ "یوکرین پرولادی میرپوٹن کے بھر پورحملے کے نتیجے میں "انسانی جانوں کا تباہ کن نقصان ہوا۔
ہم نے دیکھا ہزاروں شہری ہلاک ہوئے، لاکھوں یوکرینی شہری اپنے گھر بارچھوڑنے پرمجبورہوئے ہیں بہت سے دوسرے ممالک میں پناہ گزین بن چکے ہیں اورتاریخی شہر ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ ایک خودمختارریاست کے خلاف روس کی حکومت کی جارحیت اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ روس کی افواج کے ارکان نے جنگی جرائم اورانسانیت سوزجرائم کا ارتکاب کیا ہے جن میں قتل، زیادتی اور تشدد شامل ہے۔ دیگرروسی اہلکاروں کے ساتھ بچّوں سمیت یوکرین کی آبادی کو ملک بدر کرنا شامل ہے۔
سفیروین سکاک نے کہا کہ "اس کے بڑھتے ہوئے شواہد موجود ہیں کہ یوکرین کے ہرعلاقے میں جہاں بھی روس کی افواج تعینات ہیں، بڑے پیمانے پریہ مظالم ڈھائےجا رہے ہیں۔"
جنگ جیتنا میدان جنگ میں جیتنے سے زیادہ بڑی بات ہے۔ اس کا مطلب انصاف کی لڑائی جیتنا بھی ہے ۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ انصاف اوراحتساب بین الاقوامی برادری کی توجہ کا مرکز بنا رہے۔
سفیر نے باور کروایا کہ اس وقت یوکرین میں جنگی جرائم اوردیگرمظالم کی تحقیقات کے لیے تین عملی راستے ہیں۔
اوّل یہ کہ یوکرین کی اپنی ملکی عدالتوں میں کارروائی ہو۔ یوکرین کے پراسیکیوٹرجنرل پہلے ہی 70,000 سے زیادہ ممکنہ جنگی جرائم اوردیگر مظالم ریکارڈ کر چکے ہیں۔
امریکہ، یورپی یونین اور برطانیہ کی طرف سے قائم کردہ ایٹروسیٹی کرائمزایڈوائزری گروپ شہادتوں کے اندراج، انہیں محفوظ بنانے اوران کا تجزیہ کرنے کے ماہرین بھیج کریو کرین کے پراسیکیوٹرجنرل کی مدد کر رہے ہیں۔
دوسرا راستہ بین الاقوامی فوجداری عدالت ہے۔ آئی سی سی سے پہلے ہی رجوع کیا جا چکا ہے کیوں کہ 20 فروری 2014 میں جب روس نے کرائمیا پرقبضہ کیا تھا تو یوکرین کی حکومت نے اتفاق کیا تھا کہ وہاں ہونے والے مبینہ جرائم اس کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔
آخر میں، سفیروین سکاک نے کہا کہ دنیا بھر کی ملکی عدالتیں، خاص طورپریورپ میں، عالمی دائرہ اختیار کےاصولوں کے تحت، جو کسی ملک کی سرزمین سے باہر ہونے والے جرائم پرمقدمہ چلانے کی اجازت دیتے ہیں، یوکرین میں جنگی جرائم اوردیگر مظالم کی تحقیقات شروع کر رہی ہیں۔
سفیروین شاک نے کہا کہ یوکرین کے خلاف روس کی جنگ ایک گہرا اخلاقی مسئلہ پیش کرتی ہے جس سے عالمی برادری نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ صرف اس صورت میں ممکن ہے جب ہمارے پاس مضبوط جواب دہی کا ایسا نظام ہو جو موثر طور پرروک تھام کر سکے تاکہ اس کے نتیجے میں دیگرعالمی رہنما پوٹن کی طرح جارحیت کی جنگ شروع کرنے سے پہلے دو بار سوچیں۔"
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**