امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے ایک امریکی یہودی سول سوسائٹی کی تنظیم سے اپنے ایک حالیہ خطاب میں امریکہ اسرائیل شراکت داری کی قوت پر زور دیا اور اس بات کو واضح کیا کہ اسرائیل کے لیے امریکی سیکیورٹی امداد انتہائی قابلِ قدرہے۔
یہ امداد اسرائیل کے لیے صرف غیر ملکی فوجی سرمایہ کاری اور میزائل ڈیفنس کے لیے فنڈز کی فراہمی پر ہی مشتمل نہیں ہے بلکہ یہ سفارت کاری کے ذریعے اسرائیل کی سلامتی کو مضبوط بنانے پر بھی مشتمل ہے۔ اس میں اسرائیل کے اس کے پڑوسیوں اور دنیا بھر کے ممالک کے ساتھ گہرے ہوتے ہوئے سفارتی تعلقات کی حمایت بھی شامل ہے۔
وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ اسی لیے ہم نے اسرائیل اور عرب ریاستوں کے درمیان ابراہم معاہدوں اور تعلقات معمول پر لانے کے دیگر معاہدوں کو آگے بڑھانے اور وسعت دینے کے لیے انتھک کام کیا ہے۔
انہوں نے امریکی ثالثی کی ان کوششوں کا بھی ذکر کیا جن کے نتیجے میں اکتوبر میں اسرائیل اور لبنان کے درمیان مستقل سمندری حدود قائم کرنے کا تاریخی معاہدہ ہوااور جولائی میں ہونے والی اس سربراہ کانفرنس کا بھی حوالہ دیا جس میں ہندوستان، اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور امریکہ کے رہنماوں نے شرکت کی۔
اس کانفرنس میں حکومت، سول سوسائٹی اور نجی شعبے کی قوت کو مجتمع کرنے پر توجہ مرکوز کی گئی۔
وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ تمام فواعد اپنی جگہ لیکن اسرائیل اور اس کے پڑوسیوں کے درمیان تعلقات معمول پر آنا، اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان امن قائم کرنے کا کوئی متبادل نہیں ہے۔
دو ایسی ریاستوں کے قیام کے پائیدار مقصد کی جانب پیش رفت ہونی چاہیے جو امن و آشتی سے ایک دوسری کے ساتھ رہ سکیں۔
ان تمام کارروائیوں کی مخالفت کی جانی چاہیے جو دو ریاستی حل کے امکانات کو نقصان پہنچا ئیں۔ ان میں شہریوں کے خلاف تشدد پر اُکسانے یا اس کی توثیق کرنے۔ بستیوں کی توسیع، مغربی کنارے کے الحاق کی جانب پیش قدمی اور مقدس مقامات کی تاریخی طور پر متعین حیثیت میں خلل اندازی جیسے اقدامات شامل ہیں۔
وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ آج فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کو آزادی، سلامتی یا مواقع کے مساوی معیار حاصل نہیں ہیں۔ انہوں نے توجہ دلائی کہ بائیڈن-ہیرس انتظامیہ نے فلسطینی عوام کے ساتھ دوبارہ رابطے قائم کیے ہیں جس میں انہیں890 ملین ڈالر سے زیادہ کی امداد بھی شامل ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے مزید کہا کہ پالیسی اصلاحات کرنے کے لیے ہم نے اسرائیلی حکومت کی حوصلہ افزائی کی ہے جن کے تحت فلسطینیوں کی زندگیاں مادی طور پر بہتر ہو سکیں۔
مزید برآں انہوں نے کہا کہ "فلسطینی اتھارٹی کوبھی بامعنی اصلاحات کرنا ہوں گی کیوں کہ فلسطینی عوام کی مایوسی کے اسباب میں نظام حکمرانی کی کمزوریاں اور بدعنوانی بھی شامل ہیں۔
وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ ایسے میں جب کہ بہت سے لوگ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے دو ریاستی حل تک پہنچنے کی دہائیوں سے جاری کوششوں سے غیر مطمئن اور مایوس ہیں۔ ہم امید کا دامن نہیں چھوڑ سکتے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ جب وقت مشکل ہوتو ہمیں زیادہ سخت محنت کرنی ہوتی ہے اور ہمیں جب بھی جہاں بھی موقع ملے یہ بتانا چاہیے کہ پیش رفت اب بھی ممکن ہے۔
حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**