جوہری توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی یا آئی اے ای اے نے ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے تعاون نہ کرنے پر اس کی مذمت کی گئی ہے۔
فرانس، برطانیہ اور جرمنی کی پیش کردہ قرارداد کے حق میں 20 ووٹ ملے۔ 12 غیر حاضررہے اور روس اور چین کی طرف سے مخالفت کی گئی۔
قرارداد میں شامل متعدد مسائل کے درمیان آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل کی بڑی تشویش کی جانب توجہ دلائی گئی کہ ایران میں کئی غیر اعلانیہ مقامات پر غیر اعلانیہ جوہری مواد موجود تھا اور ایجنسی کو ان موجودہ مقامات کا علم نہیں ہے۔
قرارداد میں ایران کی جانب سے متعدد تجربہ کار انسپکٹرز پر پابندیوں کی مذمت کی گئی جن کا ’’تجزیہ اور معائنہ ایجنسی کو ایران میں اپنی تصدیقی سرگرمیوں کو مؤثر طریقے سے چلانے کی مکمل اجازت دینے کے لیے ضروری ہے۔
قرارداد میں ایران کے لیے ان حفاظتی امور کو حل کرنے کی اہمیت پر زور دیا گیا جو ابھی باقی ہیں۔
آئی اے ای اے میں امریکی سفیر لورا ہولگیٹ نے آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کے سامنے اپنے بیان میں ایران کے جوہری پروگرام کو بین الاقوامی سلامتی کے لیے ایک سنگین چیلنج قرار دیا۔
انھوں نے کہا کہ سب سے پہلے تو یہ بات ہے کہ ایران قانونی طور پر مطلوبہ تعاون فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے جو ایران کے غیر اعلانیہ مقامات پر جوہری مواد سے متعلق لمبے عرصے سے جاری تحفظات کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے۔ نتیجتاً آئی اے ای اے کے پاس اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے ضروری اعتماد نہیں ہے کہ ایران کے اعلانات درست اور مکمل ہیں۔
سفیر ہولگیٹ نے توجہ دلائی کہ دوسری بات یہ ہے کہ ایک گہری پریشان کن اور مستحکم بیان بازی ہے اور اعلیٰ ایرانی حکام کی طرف سے دھمکی دی گئی ہے کہ ایران اپنے بیان کردہ جوہری نظریے پر نظر ثانی کر سکتا ہے اور اس بات پر مصر ہے کہ اس کے پاس جوہری ہتھیاروں کو تیزی سے بنانے کے لیے ضروری صلاحیت اور تیکنیکی آلات موجود ہیں اور اگر وہ چاہے تو جوہری ہتھیار تیزی سے تیار کر سکتا ہے۔
سفیر ہولگیٹ نے آخر میں نشاندہی کی کہ آئی اے ای اے کی قراردادوں پر ایران کا ماضی کا ردِعمل تعاون کے بجائے اشتعالی تھا جس میں اس کی فورڈو تنصیب میں 60 فی صد افزودہ یورینیم کی پیداوار بھی شامل تھی۔
سفیر ہولگیٹ نے آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’ایران واحد ملک ہے جو اس سطح تک یورینئیم کو افزودہ کر رہا ہے اور جس کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں ہے۔
امریکہ پانچ جون کو منظور کی گئی اس قرارداد کی حمایت کرتا ہے، سفیر ہولگیٹ نے کہا توایسے میں ’’یہ ضروری ہے کہ قراردادوں کو ایک وسیع تر حکمتِ عملی سے جوڑا جائے۔
یہ قرارداد اس حکمتِ عملی کا پہلا قدم ہونا چاہیے جس کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام کا ایک پائیدار، موثر حل حاصل کرنا ہے جس میں آئی اے ای اے کے ساتھ مکمل تعاون بھی شامل ہو۔
سفیر ہولگیٹ نے ایران پر زور دیا کہ وہ اپنی اشتعال انگیز جوہری سرگرمیوں سے پیچھے ہٹ جائے اور بالآخر اپنی حفاظتی ذمہ داریوں کے تحت مطلوبہ مکمل تعاون فراہم کرے۔ ایران کے لیے اپنے اپنائے ہوئے اس راستے سے مختلف راستے کا انتخاب کرنے کا موقع موجود ہے۔
یہ اداریہ امریکی حکومت کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔