یوکرین کی جنگ اور بدلتے روسی مقاصد

فائل فوٹو

یوکرین پر روس کی بلا اشتعال جنگ کی قیمت ادا کرتے ہوئے ہزاروں شہری ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔ لاکھوں مزید بے گھرہوئے۔ تاریخی شہر ملبے کا ڈھیر بن گئے۔ دنیا بھر میں خوراک کی قلت اور قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔

وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا کہ "یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ صدر پوٹن کسی دوسرے ملک کو فتح کرنے کے لیے پرعزم تھے۔

وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ پوٹن اپنے مقصد میں ناکام رہے ہیں۔ یوکرین خود مختار اورآزاد رہے گا، کیونکہ یوکرین کی فوج اوراس کے عوام کی ہمت اورطاقت اس کا مقابلہ کر رہی ہے اورامریکہ اوراس کے اتحادی ان کے ساتھ کھڑے ہیں اور یوکرین کے باشندوں کو اپنی آزادی کے دفاع کے لیے درکار مدد فراہم کررہے ہیں۔

وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ جنگ کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ جوکچھ عیاں ہو رہا ہے، وہ ہے روسی استدلال اورمستقل بدلتے ہوئے اہداف کا ایک سلسلہ۔

کریملن کا تازہ ترین اعلان ہے کہ وہ ڈونباس کی نام نہاد "عوامی جمہوریہ" کے علااوہ یوکرین کے مزید علاقوں پر ملکیت کا دعویٰ کرنا چاہتا ہے۔

جب پہلی بارجنگ شروع ہوئی تو روس نے دعویٰ کیا کہ وہ یوکرین کو "نازی ازم" سے بچانا چاہتا ہے۔ اس کے بعد یہ کہا کہ حملہ نیٹو کی طرف سے ممکنہ خطرے کی وجہ سے تھا۔

وزیرِ خارجہ بلنکن نے مزیر کہا کہ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ جنگ ڈونباس میں رہنے والے نسلی روسیوں کو نسل کشی سے بچانے کے لیے تھی، پھر یوکرین کے روسی زبان بولنے والے سب سے بڑے شہرخارکیف کو مسلسل نشانہ بنایا گیا۔

صدر پوٹن یہ سمجھتے ہیں کہ یوکرین ایک آزاد ریاست نہیں ہے بلکہ یہ روس کا حصّہ ہے، اسی لیے ایسا ہوا اور ہمیشہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔

وزیرِ خارجہ بلنکن نے نشان دہی کی کہ روس اب اپنی 2014 کی "پلے بک "کی پیروی کر رہا ہے۔ اپنے کنٹرول والے علاقوں میں ناجائز کٹھ پتلی اہلکارتعینات کر رہا ہے۔ مقامی باشندوں کو روسی شہریت کے لیے درخواست دینے پر مجبور کر رہا ہے اور بیرونی رسائی میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔

انہوں نے کہا یہی ہم آئندہ دیکھنے کی توقع کرتے ہیں،روس کے مقررکردہ نام نہاد لیڈر جھوٹے ریفرنڈم کا انعقاد کریں گے تاکہ یہ کہانی بنائی جائے کہ ان جگہوں کے لوگ روس میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم جلد از جلد روس پر واضح کردیں کہ اس کے یہ حربے کارگر نہیں ہوں گے۔

وزیر خارجہ بلنکن نے کہا کہ "ایک خودمختار اورآزاد ملک کی سرزمین کا زبردستی الحاق اقوامِ متحدہ کے منشور کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ "بین الاقوامی برادری کے اراکین جنہوں نے منشور اور بین الاقوامی قانون کو برقرار رکھنے کا عہد کیا ہے۔

ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ روسی حکومت کے ان منصوبوں کی مذمت کریں اوریہ واضح کریں کہ وہ ان غیر قانونی کارروائیوں کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے، ورنہ بعد میں اگر روس اپنے منصوبوں پرعمل کر گذرے یا مستقبل میں دوسرے ممالک بھی اس کی پیروی کریں تو کسی کو بھی تعجب نہیں ہونا چاہیے۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**