ایٹمی معاہدے 'جے سی پی او اے' میں واپسی خطرے میں مگر ممکن ہے

فائل فوٹو


صدر جو بائیڈن نے عہد کیا ہے کہ یہ یقینی بنایا جائے گا کہ ایران کبھی ایٹمی ہتھیار حاصل نہ کر سکے۔ گزشتہ ایک سال میں اسی مقصد کے تحت امریکہ، 2015 کے جے سی پی او اے یا جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن نامی معاہدے میں باہمی واپسی کے لیے ایران کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کرتا رہا ہے۔

جے سی پی او اے نامی یہ معاہدہ پابندیوں میں نرمی کے بدلے ایران کے ایٹمی پروگرام کو سختی سے محدود کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ تاہم 2018 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جے سی پی او اے سے امریکہ کی علیحدگی کا اعلان کر دیا تھا اور تب سے ایران نے اپنی ایٹمی سر گرمیوں میں اس معاہدے کی حدود سے بڑھ کر توسیع کر دی ہے۔ ان میں یو رینیم افزودہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ، ایٹمی ایندھن کے ذخیرے میں اضافہ، جدید سنٹری فیوجزکی تیاری اورتنصیب اور ایٹمی توانائی کے بین الاقوامی ادارے کی جے سی پی اواے کے تحت کئے گئے وعدوں کی نگرانی اور تصدیق کو محدود کرنا شامل ہے۔

اگرچہ امریکہ اور ایران کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کئی ماہ سے تعطل کا شکار ہیں، تاہم جے سی پی او اے پر مکمل عملدرآمد کے لیے معاہدے میں باہم واپسی کا بیشتر کام مکمل ہو چکا ہے۔

امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ ہم ویانا مذاکرات میں طے ہونے والےسمجھوتے کی فوری تکمیل اور اس پر عملدرآمد کے لیے تیار ہیں۔ اس معاہدہ پر کئی ماہ سے گفت و شنید ہورہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسا کرنے کےلیے تہران کو وہ مطالبات ترک کرنا ہوں گے جو جے سی پی او اے کے دائرہ عمل سے باہر ہیں۔

ترجمان پرائس نے کہا کہ ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام کو جس انداز سے توسیع دی ہے وہ انتہائی خطرناک ہے اور ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے بین الاقوامی معاہدے کے لیے سخت تباہ کن بھی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہم جے سی پی او اے پر عملدرآمد کے لیے معاہدے میں باہمی واپسی کی کوششیں کر رہے ہیں۔ ہم ایسا اس وقت تک کرتے رہیں گے جب تک ایسا کرنا ہمارے قومی مفاد میں ہوگا اور فی الوقت باہمی طور پر جے سی پی اواے میں واپسی سے ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ سے متعلق وہ فوائد حاصل ہوں گے جو اس وقت ہمیں حاصل نہیں ہیں۔

مسٹر پرائس نے زور دے کر کہا کہ سمجھوتے کے لیے ایران کو ان تمام امور سے دست بردار ہونا ہو گا جو جے سی پی او اے کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔

ترجمان پرائس نے کہا، ہم نے یہ پوری طرح واضح کر دیا ہے کہ اس وقت ہم کہاں کھڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ایران یہ سیاسی فیصلہ کرتا ہے تو ہم اس پوزیشن میں ہوں گے کہ جے سی پی او اے پر تیزی سے عملدرآمد کے لیے معاہدے میں باہمی واپسی کی کوشش کریں۔ اگر ایران ایسا نہیں کرتا تو یہ ایسی ناموافق صورتِ حال کا خطرہ پیدا کر دے گا کہ ہم کبھی باہمی طور پر معاہدے میں واپس نہ آسکیں۔

حکومتِ امریکہ کے نکتۂ نظر کا ترجمان اداریہ جو وائس آف امریکہ سے نشر کیا گیا**